سیرِکتب (۱) کتاب: تاریخ اور تعارفِ فلسفہ

مصنف: لطیف جاوید
ناشر: پورب اکادمی اسلام آباد (پاکستان)
ضخامت: ۱۶۸ صفحات
تبصرہ: لقمان عثمانی
فلسفۂ یونان کی تاریخ، فلاسفہ کے ذہنی و فکری سفر کا آغاز، دورِ عروج و زوال اور فلسفہ مخالف نظریات و اقدامات کو اجاگر کرنے اور فلسفے سے متعلق بنادی معلومات فراہم کرنے والی اپنے موضوع پہ ایک شاندار کتاب ہے ـ
یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے جن میں تقریبا پچاس عناوین قائم کیے گئے اور ہر عنوان پر متعلقہ مواد کو جمع کردیا گیا ہے جس میں فلسفہ کی تاریخ، اس کا تعارف، کردار، اثرات، اہمیت و افادیت اور فلاسفہ کے عقائد و نظریات اور ان کے مختصر حالات کے ساتھ دیگر اہم موضوعات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا نیز یورپی فلاسفہ کے ناموں کو انگلش میں بھی لکھ دیا اور اس کا ترجمہ صوتی ہم آہنگی اور اس کے تلفظ کا خیال رکھتے ہوئے اردو میں بھی کردیا گیا ہے؛ البتہ جو مشہور نام اردو میں پہلے سے رائج تھے انہیں علی حالہ چھوڑ دینے کو ہی ترجیح دی ہے ـ
اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اختصار کے پیشِ نظر بے جا طوالت سے گریز کیا گیا اور اس کے اہم نکات کو لفظوں کے انبار میں گم ہونے سے بچایا گیا ہے؛ کیوں کہ یہ کتاب فلسفے کی اہمیت و ضرورت پر لکھی گئی ہے جو خود ایک مشکل فن سمجھا جاتا ہے؛ چناں چہ ایک مشکل فن پر غیر مانوس لفظوں کے پہرے بٹھا دینا اس فن سے مزید دوری کا باعث بن سکتا ہے بلکہ بنا بھی ہے، جس کا مصنفِ محترم نے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”مشکل تشبیہات اور استعارات سے بھرپور مبہم تحریریں لکھنا ایک غلطی ہے جسے ماضی میں اپنا کر فلسفہ اور فلسفیانہ فکر کو نقصان پہنچایا گیا ہے“ (ص: ۱۲)
پوری کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے، پہلا باب ”فلسفہ کا تعارف“ کے عنوان سے ہے جس میں فلسفے کا آغاز اور فلسفے سے متعلق تھیلس، فیثاغورث، سقراط، افلاطون اور ارسطو سمیت متعدد فلاسفہ کے نظریات بیان کیے گئے ہیں ـ دوسرا باب ”فلسفہ اور یونانی فلسفی“ ہے جس میں فلاسفۂ یونان کے حالات، نظریات، سوفسطائی تحریک، فلسفہ کا دورِ عروج و زوال اور اس کے اسباب بتائے گئے ـ تیسرا باب ”فلسفہ اور مکاتبِ فکر“ کے نام سے ہے جس میں مادیت پسندی، حقیقت پسندی، وجدانیت، تصوریت پسندی، وجودیت، جدیدیت و با بعد جدیدیت جیسے چند ایسے مکاتبِ فکر کا تذکرہ ہے جنہوں نے انسانی معاشرے اور تہذیب و تمدن کو متاثر کیا اور نئے نئے افکار سے روشناس کرایا اور فلاسفہ و حکما کے تقریبا ساٹھ اقوال بھی نقل کیے جن کا نسلِ انسانی کے ذہن و فکر پر اثر انداز ہونے میں کلیدی رول رہا ہے ـ چوتھا باب ”فلسفہ اور حضرتِ انسان“ ہے، اس باب میں فلسفہ اور انسان کے درمیان باہم ربط و تعلق، سائنس اور فلسفہ کے مابین فرق، فلسفی کی آفاقیت اور سائنس داں کی اپنے کسی خاص موضوع میں محدودیت اور فلسفی کی تعریف و خصوصیات بیان کیے گئے ہیں اور من جملہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فلسفہ کوئی مافوق الفطرت شئی کا نام نہیں بلکہ یہ بھی انسانوں کا ہی علم ہے ـ پانچواں باب ”فلسفہ مخالف رویے“ کے نام سے قائم کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح فلسفہ سے نظریاتی اختلاف کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف عملی اقدامات کیے گئے، معاندانہ رویہ برتا گیا ہے اور فلسفیوں سے ان کی عقلی تحریکوں اور فکری تحریروں کی وجہ سے ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا، کس طرح سقراط کو باغی قرار دے کر زہر کا پیالہ تھمایا گیا، کیسے الکندی کو بڑھاپے میں پچاس کوڑے لگائے گئے، الرازی کے سر پر انہیں کی فلسفیانہ کتاب مار مار کر اندھا کردیا اور کیسے فارابی، ابنِ سینا اور ابنِ رشد پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے ـ چھٹا باب ”فلسفہ کی موجودہ علمی حیثیت“ ہے جس میں فلسفے کے موجودہ علمی مقام کا محاسبہ کیا گیا، فلسفے کے بنیادی نظریات میں بھی فلاسفہ کے متفق نہ ہونے کو فلسفہ کی بدقسمتی قرار دیا اور اس کی تنزلی کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ـ
کتاب کے مطالعے کے دوران فلسفے کی حمایت میں مصنف محترم بڑے جانب دار نظر آئے اور جگہ بہ جگہ فلسفہ مخالف اقدامات اور اس کے زیرِ اثر پیش آمدہ واقعات کو اس طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان فلاسفہ کے ساتھ ایسا برتاؤ ان کی معقولیت پسندی اور اپنی عقلیت دشمنی کی وجہ سے کیا گیا ساتھ ہی اس کے ضمن میں امام غزالی نے جو بعض فلسفیانہ نظریات کی تردید کرتے ہوئے اپنی کتاب ”تہافۃ الفلاسفہ“ میں ان کے بیس نظریات پر کاری ضرب لگائی جس کے بعد فلسفے کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر ہوا اور لوگوں نے فلسفے کی کتابوں کو بھی خاکستر کردیا تھا…… وہ امام غزالی کے اس کارنامے کو ”رد عقل“ کا نام دیتے ہوئے ”افسوس ناک پہلو“ قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ”اس واقعے کو درج کرنے کا میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ تاریخِ انسانی میں ردِ عقل کا یہ واقعہ بھی سرزد ہوا ہے اور اس کا افسوس ناک پہلو میرے لیے یہ ہے کہ مسلمانوں میں ہوا ہے جن کو افلا تعقلون اور افلا تفکرون کا آسمانی حکم ملا ہوا ہے“ (ص: ۱۴۰)
جب کہ در حقیقت امام غزالی نے صرف ان کے بے بنیاد نظریات کی پڑتال اور ان باطل عقائد کی بیخ کنی کی ہے جو دینِ اسلام کی تعلیمات سے صریحا متصادم ہیں اور ساتھ ہی الہات و طبیعیات کے ہر مسئلے کو عقلیت کے ترازو میں تولنے کی حوصلہ شکنی اور انہیں نبوت و وحی کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کی ہے؛ جیسا کہ وہ تحریر فرماتے ہیں ”هذا الفن و نظائره هو الذي ينبغي أن يظهر فساد مذهبهم فيه دون ما عداه“ (تہافۃ الفلاسفۃ، ص: ۸۱) یعنی الہیات اور اس کے امثال ہی فلسفے کا وہ شعبہ ہیں جس میں ان کے فسادِ مذہب کو طشت از بام کرنا مقصود ہے، نا کہ فلسفے کے دوسرے شعبوں پر تنقید کرنا مطلوب ہے ـ
کیوں کہ اللہ کی ذات، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت اور قرآن کی حقانیت پر کامل ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہیں؛ چناں چہ ہم الہیات کے باب میں حق کی جستجو کی خاطر ان ابدی سچائیوں کو پیمانہ بنانے کی بجائے ایک ایسے فن کو کیوں کر معیار بنا سکتے ہیں جو خدا کے وجود کو مشکوک بنادے، بہ روزِ قیامت حشرِ اجساد کا انکار کرنے پہ مجبور کردے، جو دنیا کو ازلی و ابدی قرار دے اور جو خدا کے کلیات کا علم رکھنے اور جزئیات سے بے خبر ہونے کا بے تکا پاٹھ پڑھائے….. ظاہر ہے کہ ایسے نظریات کو اسلامی عقائد سے باہم متصادم ہونے کی وجہ سے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا اور جو قبول کرلے بھلا اس کا دین سے کیا تعلق، اس کا اسلام سے کیا ربط اور کفر و الحاد کے فتوے پر کیسا شکوہ؟ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اسلام کی مانیں بھی نہ اور مسلمان کہلانے کا شوق بھی پالیں…..؛ چناں چہ امام غزالی نے نفسِ فلسفہ کی مخالفت نہیں، بلکہ انہیں عقل کی دم پر سوار ہو کر مذہب کو ہیچ سمجھنے والوں کے بخیے ادھیڑنے اور انہیں رگیدنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور یہ سب کچھ منطقی طرزِ استدلال، فلسفیانہ اصطلاحات اور عقلی استشہاد کی ہی روشنی میں کیا ہے جس سے خود ہی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہی ”افلا تفکرون و افلا تعقلون“ کے علم بردار ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر آسمانی احکامات کے بھی حقیقی پاس دار ہیں ـ
Comments are closed.