ہندوستان پر یہ کیسا دور آن پڑا!

 

محمد صابر حسین ندوی

 

ہندوستان اس وقت ایسے دو راہے پر کھڑا ہے کہ اس کے سامنے تمام جمہوری مراکز، قدیم اقدار اور روایتیں آخری سانس لے رہی ہیں، ملک و بیرون ملک میں ایسی فضیحت اور رسوائی کا دور ہے کہ عقل و فہم. یافتہ ماتم کرے، ملک کا کوئی گوشہ نہیں جہاں سے قابل اطمینان خبر ہو، انتشار، افتا تفری، تشدد اور تعصب تہیں اتنی موٹی ہوچکی ہیں کہ اب اسے گنگا جمنی تمدن کا رکھوالا کہنا دھوکہ دینا ہے، کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے جو کچھ کیا اور اس کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے؛ لیکن حکومت خود اس پوزیشن میں ہے کہ ملک کو منجمد کردے، ترقی کے سارے پہیے کی ہوا نکال دے، ملک کو ایک بازار بنا کر سامان بیچنے کے بجائے ملک کو ہی بیچ ڈالے، اب تو باقاعدہ سرکار نے اعلان کردیا ہے، نجی کمپنیاں عوام کے پیسوں سے بنی اور ستر سالہ محنت و دماغ پر تیار کردہ جینیس اور قابل فخر چیزوں کو جرید رہی ہیں، اگرچہ اسے وقتی کرایہ کا نام دیا جارہا ہے؛ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس کا اصل مفہوم ابھی نہیں بلکہ بیس سال بعد ظاہر ہوگا، جب سرمایہ دار لوگوں کو غلام بنا لیں گے اور ملک کی ایک انچ پر اپنا حق جمانے کیلئے عدالتوں کا رخ کریں گے، زعفرانی سوچ اور ہندوازم کے پردے میں مفاد پرستی، خود غرضی اور مطلب برآری کا دور ایسا چل پڑا ہے کہ اسے انگریزی حکومت سے بھی کوئی مماثلت نہیں رہی ہے، مؤرخین نے لکھا ہے کہ برٹش خواہ کچھ بھی ہوں، مگر ان کے زمانے میں پبلک لائف لائن بہتر تھی، نظم، نسق اور انتطامی امور سے متعلق ہر چیز وقت کی پابند اور بہت حد تک حق پر مبنی تھیں، ان کی عدالتوں سے ایسے بہت سے منصفانہ فیصلے صادر ہوئے ہیں جن میں حق کی خاطر ججز نے کوئی رواداری نہ برتی، البتہ انہیں بغاوت پسند نہیں تھی، جبر و اکراہ کی اصل وجہ یہی تھی، مگر اس استعماریت سے ہمارا ملک بھلے ہی آزاد ہوا؛ لیکن صحیح معنوں میں سرمایہ داروں، چند سیاسی گھرانوں اور سب سے بڑھ کر مذہبی تشدد کی چپیٹ میں چلا گیا، اس سے کسی کو استثنا نہیں کیا جاسکتا، کچھ کم اور زیادہ کا فرق ہوسکتا ہے، بالخصوص ہندوازم نے جس تیزی سے پیر پسارے اور مسلمانوں نیز دیگر مذاہب نے اپنے دائرے محدود کئے وہ عجیب و غریب داستان ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب سبھی حاشیہ پر ہیں اور زعفرانیت کا پرچم لہرا رہا ہے، ان کی محنتیں، منظم کوششیں اور سازشیں اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ وہ حکومت و سلطنت کا ذائقہ اٹھائیں اور جن لوگوں نے دست بستہ صرف سلامی دینے، لینے اور واہ واہی کرنے؛ نیز جلسے جلوس کرنے میں وقت ضائع کیا ان پر لازم ہے کہ اب جوتے کھائیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ وہ محنت کا پھل کھا رہے ہیں، عدلیہ، انتظامیہ، بیوروکریسی اور تمام شعبے ان کے قبضے میں ہیں، وہ جسے انصاف کہہ دیں وہ انصاف ہے اور جس کو غیرقانونی بتلادیں وہ وہی قانون ہے، ہر کوئی سوشل میڈیا، نیوز ٹی وی وغیرہ کی ڈبیت سے واقف ہے، کیا آپ نہیں جانتے کہ ایک شخص لگاتار، پورے زور و شور کے ساتھ بنا کسی دلیل اور ثبوت فراہم کیے ہی سرکار کی حمایت میں جھوٹ پر جھوٹ بولے جاتا ہے، اپنی من مانی کرتے ہوئے جس مدعی کو چاہے اچھالتا ہے اور جس کو چاہے دبا دیتا ہے، جس پر الزام لگادے وہ عدالت سے پہلے ہی مجرم بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ دہشت گردانہ سلوک کیا جانے لگتا ہے، یہ سب کچھ ہے، قانون کی دھاندلی بھی کھلے عام ہے، بابری مسجد اور اس جیسے متعدد فیصلے کے بعد اب بھی عدالت پر بھروسہ کی بات کہنا اور پھر سیاست سے دور رہ کر اپنی مظلومیت کا رونا روتے رہنا سوائے ضیاع وقت کے اور کچھ نہیں؛ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان نام سے نفرت اس انتہا کو ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور دیگر تمام مدعی ہوا ہوگئے ہیں، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کی ترقی و تعمیر میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں ہورہا ہے؟ بھلا دنیا میں ایسا کون ہوگا جو اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنا چاہتا ہو؛ لیکن اس وقت زعفرانیت جوش، رنگ اور جنون کا یہ عالم ہے کہ وہ پیر پر کلہاڑی نہیں بلکہ پیر کلہاڑی پر مارنے کو تیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی حالت اتنی رنجیدہ اور تشویشناک ہوچکی ہے؛ کہ اس کا کوئی مداوا نہیں مل رہا ہے، بڑی بڑی پنچایتوں کا انعقاد کیا جارہا ہے مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہے، اتر پردیش میں انتخابات کی تیاریوں کے بیچ کسانوں کی اہمیت کیا ہے یہ تو وقت بتایے گا؛ لیکن ہوا کا رخ کچھ اور ہی کہتا ہے جو زبان پر لانا بھی مناسب نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ماحول میں بھی مسلم طبقہ سنجیدہ ہونے سے قاصر ہے، منظم پیش قدمی کرنے اور ملک میں اکثریت کی زور زبردستی سے پنجہ آزمائی کرنے سے پچھڑ رہی ہے، اپنی بہو، بیٹیوں کو بھی بچانے اور ان کیلئے حق کی آواز بننے کی سکت نہ رکھنے والے، عام مسلمانوں کی جان مال اور آبرو کو سر عام لٹتا دیکھنے والے بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے، آہ! یہ کیسا دور ہے؟

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.