"صبر و شکر”
صبر کا راستہ چن لو صبر کی منزل جنت ہے۔

ثمرین گل (راجن پور)
ہر چیز کا نعم البدل نہیں ہوتا،ہر کمی پوری نہیں ہوتی،ہر تصویر پھر سے مکمل نہیں ہوتی، کیونکہ کچھ امتحان صبر اور صرف صبر کے ہوتے ہیں۔ زندگی آزمائشوں کا سمندر ہے،کسی سے لے کر آزمایا جاتا ہے،کسی کو بے تحا شا دے کر آزمایا جاتا ہے ،بس کہیں صبر اور کہیں آزمائش ہے۔
صبر اور شکر کی جہاں تک بات ہے،اُسکے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔صبر اور شکر ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔جس کو بجا لانے سے ہمیں دونوں جہانوں میں عزت ملتی ھے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترین وہ انسان ہے جس کے اندر عاجزی و انکساری صبر و شکر جیسی خصوصیات موجود ہوں۔شکر سیکھنا چاہیے،شکر سیکھئے اور ادا کیجئے ، ہر اُس شے کا جو موجود ہے،اور ہر اُس شے کا جو آپکے پاس موجود نہیں ہے،زندگی سہل ہوجائے گی۔
صبر اور شکر کا تعلق عاجزی و انکساری سے ہے۔قابل غور بات تو یہ ہے کہ ہمارا جسم جو کے مٹی سے بنا ہے اس پر پانی پڑنے سے یہ نا تو مٹی میں نہ کیچڑ میں تبدیل ہوتا ہے کیا یہ بات شکر کرنے کے لئے کافی نہیں؟
اگر میں موجودہ دور کی بات کروں تو آج نہ تو انسان میں صبر ہے نہ شکر ہر ہر انسان بس ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے، ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ دنیا کے خزانے اُسکے پاس موجود ہوں اسکو جتنا ملا اُس میں نا خوش ہے۔
یہاں میں کچھ نفسیاتی حقا ئق
بیان کرتی چلوں، آپکی مشکل نوکری،کسی بے روزگار کا خواب ہے۔آپکا پریشان کرنے والا بچہ، کئی بانجھ لوگوں کا خواب ہے۔
آپکا چھوٹا سا گھر ،کسی بے گھر کا خواب ہے۔
آپکا تھوڑا سا پیسہ کئی قرضہ داروں کا خواب ہے۔کہنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں صبر و شکر اور اطمینان کا طریقہ اپنائیں۔
بقول "اشفاق احمد”
انسان کی زندگی میں دو طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ایسے حالات جو طبیعت کے مطابق ہوں اور خوش کن ہوں اور دوسرے وہ حالات جو طبیعت کے منافی ہوں اور نا خوش گوار ہوں تو ان حالات میں عبدیت یہ ہے کہ یوں سمجھیں کہ حق تعالیٰ مجھے قرب عطا فرمانا چّاہتے ہیں۔خوش گوار حالات میں شکر کروں گا اور نا گوار حالات میں صبر کروں گا۔ صبر شکر اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ دنیادار جس مقام پر بیزار ہوجاتا ہے مومن اُس مقام پر صبر اختیار کرتا ہے۔مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے مقرب اُس مقام پر شکر ادا کرتا ہے۔
وہ ربّ عظیم ہے جو ہمیں ہمارے شکر کا بدلہ دیتا ہے۔میں کیسے کہوں کہ میں نے ربّ سے مانگا ہو اُس نے مُجھے نہ دیا ہو اُس نے تو مجھے بن مانگے بہت کُچھ عطا کیا ہے، پھر میں نے عزت مانگی اُس نے عزت دی،میں نے رزق مانگا اُس نے دیا،میں نے نعمتیں مانگی اُس نے دیں،میں نے کامیابی مانگی اُس نے دی ،میں نے پریشانیوں سے نجات مانگی اُس نے نجات دلائی میری دعائیں رائیگاں نہیں گئیں، تو کیسے میں اس عظیم ہستی کا شکر نہ بجا لاؤں میں اسکی آزمائشوں پے کیسے نہ صبر کروں۔
ہم سب کو خدا کی ہر آزمائش پر صبروتحمل اور شکر کا مظاہرہ کرنا چائیے۔
"نا شکری "زوال کا آغاز اور
"استغفراللہ” سر بلندی کا وظیفہ۔
Comments are closed.