“نیا نگر”:ادبی بے ادبیوں کا کچا چٹھا

تبصرہ نگار :احمد بن نذر
تصنیف حیدر کا یہ ناول دنیائے شعر و ادب کی بے ادبیوں،سازشوں،چالبازیوں اور جعل سازیوں کی پرتیں بڑے واضح انداز میں کھولتا ہے۔ادب کی یہ دنیا باہر اور دور سے جس قدر موءدب،مہذب اور مثقف نظر آتی ہے،اندر اور قریب سے اتنی ہی مکار،دھوکے باز اور کذب و افترا کی آماجگاہ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں اہلِ فکر و فن اپنی صلاحیت و ہنر پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی خودداری کا سودا کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوتے،اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں اپنی زندگی کی شبِ تاریک کو سَحر کرنے کا کوئی انتظام نہیں کر پاتے۔
ناول کا مرکزی کردار مجید صاحب ہیں،جو ایک کہنہ مشق،سینیئر اور استاد شاعر ہونے کے ساتھ ایک شریف الطبع،بردبار اور رکھ رکھاؤ والے انسان ہیں۔تقریباً پورے نیا نگر کے شاعروں کی شاعری ان ہی کا فیضان نظر بھی ہے اور بعض اوقات فیضان قلم بھی۔
ان کے تین بیٹوں میں سے ایک،منجھلا بیٹا ان ہی کی روش پر گام زن شعر و ادب کے جہان میں اپنی کم عمری سے ہی اپنی علمیت کا لوہا منوانے لگتا ہے۔لیکن کتابوں کے رسیا اور قافیہ و ردیف کے اسرار و رموز کے ماہر ان دونوں باپ بیٹوں میں کسب معاش سے لاتعلقی،نان ہائے شبینہ کی فکر سے آزادی،اور غمِ روزگار سے بے توجہی مشترک ہے۔
پورا گھر گھر بس مجید صاحب کے بڑے بیٹے مجیب کی ماہانہ یافت پر گزر بسر کرنے کو مجبور ہے،جو فلیٹ کے کرائے،ماہانہ راشن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہے۔
مجید صاحب کو ملنے والے چھوٹے موٹے ہدیے تحفے،ان کے اعزاز میں منعقد نشستیں،اور وقتاً فوقتاً صدرِ مشاعرہ کی کرسی کا نشہ یا تو انہیں گھر بار کی فکر سے بے نیاز کیے رکھتا ہے،یا یہ کہ انہوں نے طبیعت ہی ایسی راہبانہ پائی ہے کہ ان گھریلو مسائل پر سوچنا ان کےلیے کارِ فضول ہے۔
ناول میں مجید صاحب کی ایک شاگردہ کی چھوٹی بہن کے جسمانی خد وخال ذرا نمایاں انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔جس پر مجید صاحب کے دونوں بیٹوں کی نظر رہتی ہے،چھوٹا بھائی تو اس کے گھر کے کام کاج کےلیے “وقف” ہو کر اس کی اماں کو رام کرنے کی مکمل کوشش کرتا ہے،جب کہ منجھلا اپنی ادبی قابلیت کے توسط سے اسے مرعوب کرکے اپنی جھولی میں آ گرنے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔لیکن اس لڑکی پر اس کے بھائی کا ایک ہم پیشہ ہی ہاتھ صاف کر جاتا ہے،اور وہ بھی اس طرح کہ جس دن چھوٹا بھائی بادلِ ناخواستہ اپنے منجھلے بھائی کا محبت نامہ لیے اس کے گھر پہنچتا ہے،بھائی کے اس ہم پیشہ کی نیکر میں جیب کے اوپر لگا ہوا دھبہ اور اندر تنہا لڑکی،پورے معاملے کی چغلی کر دیتے ہیں۔
ناول میں ایک کردار اس متشاعر کا بھی ہے جو منجھلے بھائی سے تین سو روپے کے عوض لکھوائے ہوئے فلمی گانے سے لاکھوں بٹور لیتا ہے،اور اس ایڈیٹر کا بھی ہے جو اپنے رسالے کی کاپیاں بیچنے کے مختلف حربوں سے خوب واقف ہے،اس استاد شاعر کا بھی جو اپنی تعریف سے پھول کر کپا ہوا جاتا ہے اور اس کے اس چاپلوس شاگرد کا بھی جو اپنے استاد کی وہ تازہ غزلیں پڑھ کر داد وصول کر رہا ہوتا ہے،جنہیں صدر مشاعرہ کی مسند پر جلوہ افروز استاد نے اپنے پڑھنے کےلیے شاگرد کے پاس رکھوائی تھیں۔ناول ادبی سیاستوں بلکہ خباثتوں کے حوالے سے کافی سارے انکشافات کرتا ہے اور ادبی چہروں پر چڑھے ملمع کاریوں کے غلاف چاک کرکے ان کی کریہہ صورتوں سے آشنا کرواتا ہے۔
کتاب میں ٹائپنگ کی بے شمار غلطیاں یہ بتلانے کےلیے کافی ہیں کہ اس کی پروف ریڈنگ نہایت رواروی میں کی گئی ہے،املاء کی غلطیاں پوری کتاب میں جا بجا ہیں۔ایک ہی لفظ کے الگ الگ جگہوں پر املاء جدا جدا ہیں۔کتاب میں “دوکان” بھی موجود ہے،اور “دکان” بھی،”مصاحفہ” بھی مرقوم ہے اور “مصافحہ” بھی۔پاکستانی طرزِ املاء کی پیروی میں اسکول،اسپیس،اسٹول اور اسٹارٹ جیسے انگریزی سے برآمد شدہ الفاظ بدونِ الف (سکول،سپیس،سٹول،اور سٹارٹ)لکھے گئے ہیں۔
ہندی کے “روڑھی وادی،پکش،سمسیا،وِبھاگ،چِنتا” جیسے الفاظ عبارات میں زبردستی داخل کیے گئے ہیں،جو اردو میں کہیں سے بھی قابلِ انہضام نہیں ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ “پکش” اور “پچھ” دونوں طرح کے املاء کتاب کا حصہ ہیں۔
جن مقامات پر ہندی کے ان الفاظ کےلیے جگہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے،وہاں ان کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔بالفرض اگر یوں ہوتا کہ یہ الفاظ کسی ایسے کردار کی زبان سے ادا ہو رہے ہوتے جو ہندو ہوتا،اور اس کی مادری زبان ہندی ہوتی تو بھی بات کسی حد ٹھیک ہو سکتی تھی،مگر یہاں تو سرے سے ایسے کسی کردار کا وجود بھی نہیں ہے۔
اردو کو خالص رکھنے کے بجائے علاقائی زبان کی آمیزش سے اسے مکدر کر دیا گیا ہے،اور اس کے توڑے مروڑے ہوئے الفاظ بھی اٹھا کر شامل کر لیے گئے ہیں۔کتاب میں “پائنتی” کے بجائے “پتیانے”،چادر “تہہ کرنے” کے بجائے “تہانا”،انگلیاں آپس میں “ڈالے” کے بجائے انگلیاں آپس میں “گتھوئے”،شادی “طے ہو گئی” کے بجائے شادی “لگ گئی” وغیرہ بھی دھڑلے سے مستعمل ہیں۔
ایسے ہی ہندی والوں کی طرح “ناکامی” کی جگہ “ناکامیابی”،اور “بے اختیار” کی جگہ “بے اختیارانہ”،شام “کے چار بجے تھے” کی جگہ شام “کا چار بجا تھا”،نیز ہندی لفظ کو فارسی کا خول پہنائے ہوئے “چاپلوسانہ” جیسے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
کتاب کی طباعت اچھی،تزئین پر کشش اور کاغذ بھی معیاری ہے۔لیکن کتاب کی ضخامت محض 136 صفحے ہونے کے اعتبار سے بہتر طباعت کے باوجود اس کی قیمت 300 روپے بہت زیادہ ہے۔
ناول کافی دل چسپ ہے،زبان صاف اور شستہ سی اور اسلوب رواں ہے۔پڑھتے ہوئے کہیں بوریت یا اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا،البتہ ٹائپنگ،املے اور زبان کی ہلکی پھلکی خامیاں دورانِ قرأت تعقید پیدا کرکے انہماک میں خلل انداز ضرور ہوتی رہتی ہیں۔
احمد بن نذر
Comments are closed.