امام عشق ومحبت کے عشق رسالت کا ایک روشن باب
محبوب کے محبوبوں سے محبت

از:مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیا و مفتی مرکزی دارالافتاء،بریلی شریف
عاشق کو اپنے معشوق ومحبوب کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تین جادے اختیار کرنے پڑتے ہیں:اوّل محبوب کی مدح سرائی، دوم محبوب کے محبوبوں کی تعظیم و توصیف ، سوم گستاخان محبوب سے حقیقی نفرت وعداوت اور ان کی مذمت۔
ان طریقوں کو اپنائے بغیر معشوق کی نظر التفات کا خیال محض خیال خام ہے، عاشق کو ہر اس شئے کو اپنے دل میں بٹھانا پڑتا ہے جسے معشوق سےکسی طرح کی ادنیٰ سی بھی نسبت حاصل ہویا بالفاظ دیگر عاشق کو ہر ان تنکوں، ہران ذروں اور قطروں کو اپنے سر اور آنکھوں پہ جگہ دینی پڑتی ہےجنھوںنےکبھی معشوق کے جسم اطہر کالمس پایا ہو، جو کبھی معشوق کے دست ناز سے بہا ہو، محبوب کی ناز برداریاں تو تقریباً سبھی کر لیتے ہیںلیکن محبوب کے محبوبوںکی ناز برداری ہمہ شما کے بس کی بات کہاں؟ در حقیقت محبت کاحق اس وقت تک ادا نہیں ہوتا جب تک محب ہر اس ادا کو اپنی حیات کا جز نہ بنا لے، جب تک محب ہر اس ہستی کو محبوب نہ رکھے جو محبوب کا محبوب ہو، جب تک محب ہر اس شئے کو قابل احترام نہ گردانے جسے محبوب محترم رکھتا ہو۔
امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عشق ومحبت میںاس قدرسرشارتھے کہ آپ سے ادنیٰ سی نسبت رکھنے والوںسے بھی غایت درجہ محبت کرتے تھے ،وہ چاہے آل مصطفےٰ ہوںیااصحاب مصطفےٰ !تابعین تبع تابعین ہوں یانائبین مصطفےٰ،آپ کے تبرکات ہوںیامنسوبات،چنانچہ اعلیٰ حضرت امام عشق ومحبت کو صحابۂ کرام سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی شان میں ذرا بھی گرا ہوا لفظ آپ کو نا قابل بر داشت تھا ، حضرت علامہ طحاوی جیسے عظیم الشان فقیہ نے ایک مقام پر یہ جملہ لکھا ہے کہ ’’ بعض صحابۂ کرام کو وہم ہوا ہے‘‘ اعلیٰ حضرت کو یہ جملہ نشتر کی طرح لگا، آپ فورا تنبیہ فرماتے ہیں :
’’ میں کہتا ہوں کہ یہ لفظ ادب سے بعید ہے ،اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘
خلیفۂ اعلیٰ حضرت ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف’’حیات اعلیٰ حضرت‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’علمائے کرام نے اپنی مستند تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی محبت وتعظیم سے ہے کہ وہ چیز جس کو حضور اقدس ﷺ سے نسبت واضافت ہے ، اس کی تعظیم و توقیر کرنی اور اس میں سادات کرام جزء رسول ہونے کی وجہ سے سب سے مستحق تعظیم و توقیر ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا میں نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا، اس لئے کہ کسی سید صاحب کو وہ ان کی ذات حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ اس حیثیت سے ملاحظہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا جز ہیں پھر اس اعتقاد و نظر یات کے بعد جو ان کی تعظیم و توقیر کی جائے، سب درست و بجا ہے، اعلیٰ حضرت اپنے قصیدئہ نور میں یوں عرض کرتے ہیں ۔‘‘ ؎
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
توہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
[حیات اعلیٰ حضرت قدیم، ص ۲۰۱]
اب آپ خود ہی ملاحظہ فرمایئے کہ اپنے وقت کا ایک رفیع الدرجت اور عظیم المرتبت امام اپنے معشوق سے نسبت رکھنے والوں کی کس طرح ناز برداریاں کرتا ہوا نظر آ رہا ہے، ملاحظہ فرمائیے علامہ ارشد القادری کی زبانی:
’’امام اہل سنت کی سواری کے لئے پالکی دروازے پر لگا دی گئی تھی، سیکڑوں مشتاقان دیدار انتظار میں کھڑے تھے، وضو سے فارغ ہوکر کپڑے زیب تن فرمائے، عمامہ باندھا اور عالمانہ وقار کے ساتھ باہر تشریف لائے، چہرۂ انور سے فضل وتقویٰ کی کرن پھوٹ رہی تھی، شب بیدار آنکھوں سے فرشتوں کا تقدس برس رہا تھا، طلعت جمال کی دل کشی سے مجمع پر ایک رقت انگیز بے خودی کا عالم طاری تھا، گویا پروانوں کے ہجوم میں ایک شمع فروزاں مسکرا رہی تھی اور عندلیبان شوق کی انجمن میں ایک گل رعنا کھلا ہوا تھا، بڑی مشکل سے سواری تک جانے کا موقع ملا ،پابوسی سلسلہ ختم ہونے کے بعد کہاروں نے پالکی اٹھائی، آگے پیچھے دائیں بائیں نیاز مندوں کی ہمراہ بھیڑ چل رہی تھی، کہار پالکی کےکر ٹھوڑی ہی دور چلے تھے کہ امام اہل سنت نے آواز دی ’’پالکی روک دو‘ ‘ حکم کے مطابق پالکی روک دی گئی، ہمراہ چلنے والا مجمع بھی وہی رک گیا،اضطراب کی حالت میں باہر تشریف لائے، کہاروں کو اپنے قریب بلایا اور بھرّائی ہوئی آواز میں دریافت کیا: آپ لوگوں میں کوئی آل رسول تو نہیں؟ اپنے جد اعلیٰ کا واسطہ سچ بتائیے، میرے ایمان کا ذوق لطیف تن جاناں کی خوشبو محسوس کر رہا ہے۔
اس سوال سے اچانک ان میں سے ایک شخص کے چہرہے کا رنگ فق ہو گیا، پیشانی پر غیرت وپشیمانی کی لکیریں ابھر آئیں، بے نوائی ،آشفتہ حالی اور گردش ایام کے ہاتھوں ایک پامال زندگی کے آثار اس کے انگ انگ سے آشکار تھے، کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد نظریں جھکائے دبی زبان سے کہا:
مزدور سے کام لیا جاتا ہے، ذات پاک نہیں پوچھا جاتا، آہ! آپ نے میرے جد اعلیٰ کا واسطہ دےکر میری زندگی کا ایک سر بستہ راز فاش کر دیا، سمجھ لیجئے کہ میں اسی چمن کا ایک مرجھایا ہوا پھول ہوں،جس کی خوشبو سے آپ کی مشام جاں معطر ہے، رگوں کا خون نہیں بدل سکتا، اس لئے آل رسول ہونے سے انکار نہیں ہے، لیکن اپنی خانماں برباد زندگی کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے، چند مہینے سے آپ کے اس شہر میں آیا ہوا ہوں ، کوئی ہنر نہیں جانتا کہ اسے اپنا ذریعۂ معاش بناؤں ، پالکی اٹھانے والوں سے رابطہ قائم کر لیا ہے، ہر روز سویرے ان کے جھنڈ میں آکر بیٹھ جاتا ہوں اور شام کو اپنے حصہ کی مزدوری لےکر بال بچوں میںلوٹ جاتا ہوں، ابھی اس کی بات تمام بھی نہیں ہو پائی تھی کہ لوگوں نے پہلی بار تاریخ کا یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ عالم اسلام کے ایک مقتد رامام کی دستار اس کے قدموں پر رکھی ہوئی تھی اور وہ برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر التجا کر رہا تھا۔
’’معزز شہزادے! میری گستاخی معاف کر دو، لا علمی میں یہ خطا سر زد ہو گئی ہے، ہائے غضب ہو گیا ،جن کے کفش پا کا تاج میرے سر کا سب سے بڑا اعزاز ہے، ان کے کاندھے پر میں نے سواری کی، قیامت کے دن اگر سرکار نے کہیں پوچھ لیا کہ احمد رضا! کیا میرے فرزندوں کا دوش نازنین اسی لئے تھا کہ وہ تیری سواری کا بوجھ اٹھائیں؟تو میں کیا جواب دوںگا ، اس وقت بھرے میدان محشر میں میرے ناموس عشق کی کتنی بڑی رسوائی ہوگی،آہ! اس ہولناک تصور سے کلیجہ شق ہوا جارہا ہے۔‘‘
دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جس طرح ایک عاشق دلگیر اپنے روٹھے ہوئے معشوق کو مناتا ہے ،بالکل اسی انداز میں وقت کا ایک عظیم المرتبت امام اس کی منت و سماجت کرتا رہا اور لوگ پھٹی آنکھوں سے عشق کی ناز برداریوں کا یہ رقت انگیز منظر دیکھتے رہے۔
یہاں تک کہ کئی بار زبان سے معاف کر دینے کا اقرار کرا لینے کے بعد امام اہل سنت نے پھر اپنی ایک آخری التجائے شوق پیش کیا، چونکہ راہ عشق میں خون جگر سے زیادہ وجاہت و ناموس کی قربانی عزیز ہے، اس لئے لاشعوری کی اس تقصیر کا کفارہ جب ہی ادا ہوگا کہ اب تم پالکی میں بیٹھو اور میں اسے کاندھے پر اٹھاؤں،اس التجا پر جذبات کے تلاطم سے لوگوں کے دل دہل گئے، وفور اثر سے فضامیں چیخیں بلند ہوگئیں، ہزاروں انکار کے باوجود آخر سید زادہ کو عشق جنون خیزکی ضد پوری کرنی ہی پڑی ۔
آہ! وہ منظر کتنا رقت انگیز اور دل گدازتھا جب اہل سنت کا جلیل القدر امام کہاروں کی قطار سے لگ کر اپنے علم وفضل، جبہ و دستار اور اپنی عالمگیر شہرت کا سارا اعزاز خوشنویٔ حبیب کے لئے ایک گم نام مزدور کے قدموں پر نثار کر رہا تھا، شوکت عشق کا یہ ایمان افروز نظارہ دیکھ کر پتھروں کے دل بھی پگھل گئے، کدورتوں کا غبار چھٹ گیا، غفلتوں کی آنکھ کھل گئی اور دشمنوں کو بھی مان لینا پڑا کہ آل رسول کے ساتھ جس کے دل کی عقیدت و اخلاص کا یہ عالم ہے خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کی وارفتگی کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔‘‘ [لالہ زار، ص ۱۴۹]
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
یہ ہےاعلیٰ حضرت کا جذبۂ عشق رسالت ! جس کی پاسداریوں کی صرف ایک ہلکی سی جھلک آپ کے معشوق زادے کے ساتھ آپ نے صفحۂ قرطاس کے سہارے تصوّر کے پردے پر دیکھا، ذیل میں چند جھلکیاں اور ملاحظہ فرمائیے اور عشق رسالت کے اس بحر ذخار قاسم سےجذبۂ عشق رسول کی دولت خیرات لیجئے:
’’ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بعد نماز جمعہ پھاٹک میں تشریف فرما تھے، آپ کے ارد گرد شیدائیوں کا ہجوم لگا ہوا تھا، باہر سے مولوی نور محمد کے ’’قناعت علی، قناعت علی‘‘ پکارنے کی آواز حضرت کے گوش گزار ہوئی، فوراً انہیں طلب کیا اور ارشاد فرمایا ’’سید صاحب کو اس طرح پکارتے ہو،کبھی آپ نے مجھے بھی نام لیتے ہوئے سنا؟
مولوی نور احمد صاحب نے ندامت سے نظریں جھکا لیں ، آپ نے فرمایا تشریف لے جائیے اور آئندہ سے اس کا لحاظ رکھئے اور مزید اسی وقت یہ بھی فرمایا کہ شریف مکہ کے زمانے میں حاجیوں سے ٹیکس بڑی سختی سے وصول کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کے کارکن مستورات تک کی جامہ تلاشی کرتے تھے ،ایک عالم صاحب مع مستورات وہاں پہنچے ،ان کی مستورات کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا گیا، عالم صاحب کو یہ بات بہت شاق گزری اور انہوں نے رات بھر شریف صاحب کو برا بھلا کہا اور بددعائیں دیں،صبح ہوتے ہی آنکھ لگ گئی خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے (حضور) ارشاد فرماتے ہیں: مولوی صاحب کیا میری اولاد ہی آپ کی بددعا کرنے کو رہ گئی تھی؟ پھر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ سید کو قاضی اگر حد لگائے تو یہ خیال نہ کرے کہ میں سزا دے رہا ہوں بلکہ یہ خیال کرے کہ شہزادے کے پیر میں کیچڑ بھر گئی تھی، اسے صاف کر رہا ہوں۔‘‘ [حیات اعلیٰ حضرت قدیم،ص ۲۰۴]
’’جس زمانے میں اعلیٰ حضرت کے دولت کدہ کی مغربی جانب نیا کتب خانہ تعمیر ہو رہا تھا، اس لئے مستورات آپ کے برادر اوسط مولانا حسن رضا خاں صاحب کے مکان منتقل ہوگئیںتھیںاورحضورکا مکان مردانہ ہوگیا کہ ہر وقت راج مزدوروں کا ہجوم لگا رہتا تھا، یوں ہی کئی مہینوں تک وہ مکان مردانہ ہی رہا، جن صاحب کو حضور کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل کرنا ہوتا بے کھٹک پہنچ جایا کرتے تھے ، جب کتب خانہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تو حسب دستور مستورات اس مکان میں واپس آ گئیں، اتفاق کہ ایک سید صاحب جو کچھ دنوں پہلے آ چکے تھے دوبارہ تشریف لائے اور چونکہ مکان کو مردا نہ پایا تھا، اس لئے اس خیال سے کہ مکان مردا نہ ہے، بے تکلف اندر تشریف لے گئے، جب نصف آنگن میں گئے تو مستورات انہیں دیکھ کر گھبرا کر پر دے میں ہوگئیں جو اِدھر اُدھر اپنے خانہ داری میں مصروف تھیں، ان کے اِدھر اُدھر بھاگنے کی آہٹ سے سید صاحب کو علم ہو گیا کہ یہ مکان زنانہ ہو گیا ہے، مجھ سے سخت غلطی ہوئی جو اندر چلا آیااور ندامت کے مارے سر جھکائے واپس ہونے لگے کہ اعلیٰ حضرت دکھن کی جانب سائبان سے فوراً تشریف لائے اور جناب سید صاحب کو لےکر اس جگہ پہنچے جہاں آپ تصنیف وتالیف میں مشغول رہا کرتے تھے اور سید کو بٹھا کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے تاکہ سید صاحب کی پریشمانی وندامت دور ہو سکے ،پہلے تو سید صاحب خفت کے مارے خاموش رہے پھر معذرت کی اور اپنی لا علمی کا اظہار کیا کہ مجھے مکان کے زنانہ ہونے کا علم نہ تھا، اعلیٰ حضرت سراپا الفت نے فرمایا کہ حضرت یہ سب تو آپ کی باندیاں ہیں ،آپ آقااور آقا زادے ہیں ،معذرت کی کیا حاجت ہے ،میں خود سمجھتا ہوں، حضرت اطمنان سے تشریف رکھیں ،غرض بہت دیر تک سید صاحب کو وہیں بٹھاکر ان سے بات چیت کی ،پان منگوا کر انہیں کھلایا،جب دیکھا کہ سید صاحب کے چہرے پر آثار ندامت نہیں ہیںاور سید صاحب نے اجازت چاہی تو ساتھ ساتھ تشریف لائے اور باہر پھاٹک تک پہنچاکر ان کو رخصت کیا۔‘‘ [حیات اعلیٰ حضرت قدیم، ص۲۰۷]
تعظیم سادات سے اعلیٰ حضرت کی حیات کی صبح و شام اور شب وروز معطر ہیں، کس کس سے صفحۂ قرطاس کو زینت بخشی جائے ،آپ کے عشق کا جلوہ مفتی اعظم ہند کی حیات بابرکت میں نظر آیا، جسے سیکڑوں نے بچشم خود ملاحظہ کیا، عشق رسول ہو تو تعظیم آل رسول از خود پیدا ہو جاتی ہے، سادات کرام تو جزء بدن ہیں، اعلیٰ حضرت نے تو آثار مبارکہ کی بھی غایت درجہ تعظیم کی اور ’’بدر النور فی آداب الآثار، شفاء الوالہ فی صور الحبیب و مزارہ ونعالہ‘‘ اور دیگر کئی مستقل رسالے تعظیم آثار مقدسہ کے باب میں تصنیف فرمائی۔
*نائبین مصطفےٰ کااکرام*
چونکہ علمائے کرام وارث انبیا اور نائب رسول ہیں اور علما کی تعظیم مثل تعظیم رسول ہے جیسا کہ حدیث پاک میںوارد ہے کہ جس نے علما سے مصافحہ کیا ،گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا ،لہٰذا علمائے کرام بھی محبوب مقبول بارگاہ رسول ہیں، اعلیٰ حضرت نے علمائےکرام کی غایت درجہ تعظیم وتوقیرکی اور یہ درس دیا کہ تعظیم علمائے کرام بھی تعظیم رسول کا ایک فرد ہے۔
چنانچہ حضرت مولانا شاہ اسمٰعیل حسن میاں صاحب کا بیان ہے :
’’مولانا احمد رضا صاحب بہ مضمون اشداء علی الکفار رحماء بینھم جس قدر کفار ومرتدین پر سخت تھے ،اسی درجہ علما ئے اہل سنت کے لئے ابر کرم اور سراپا کرم تھے، جب کسی سنی عالم سے ملاقات ہوتی دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے اور ان کی ایسی عزت وقدر کرتے کہ وہ خود اپنے کو اس کا اہل نہ خیال کرتے، خصوصاً مولانا عبد القادر صاحب اور مولانا احمدرضا خاں صاحب میں جو اخلاص و محبت واتحاد و وداد کے تعلقات تھے دیکھنے ہی سے تعلق رکھتے، مختصر یہ کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کو مولانا عبد القادرصاحب اپنے عزیز ترین بھائی سے کسی طرح کم نہ سمجھتے تھے، اپنی قوت بازو خیال فرماتے اور مولانا احمد رضاخاں صاحب بھی ان کو اپنا بزرگ بھائی جانتے ،ان کے اعزاز و اکرام میں مافوق العادات کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں فرماتے ،حتی کے ان کے سامنے حقہ نہ پیتے پان نہ کھاتے۔‘‘[حیات اعلیٰ حضرت ، ص ۱۹۶]
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علمائے کرام کی تعظیم وتوقیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیتے ، آپ کو علما ئے کرام سے بھی والہانہ عقیدت ومحبت تھی۔
*اکرام حجاج*
اعلیٰ حضرت کو حجاج اکرام سے بھی والہانہ عقیدت و محبت تھی ، جب کوئی صاحب حج بیت اللہ کرکے حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تو نہایت عجز وانکساری سے ان سے ملتے اور احترام عقیدت سے ان کی خاطر و مدارت فرماتے ،لوگوں کا بیان ہے کہ آپ حجاج کرام کے قدم چوم لیا کرتے تھے، جناب سید ایوب علی رضوی صاحب کا بیان ہے کہ جب کوئی صاحب حضور کی خدمت میں حج بیت اللہ کرکے حاضر ہوتے تو آپ کا پہلا سوال یہی ہوتا کہ سرکار میں حاضری دی ؟ اگر جواب اثبات میں ہوتا تو فوراً ان کے قدم چوم لیتے اور اگر جواب نفی میں ہوتا تو مطلق تخاطب نہ فرماتے۔[حیات اعلیٰ حضرت،ص۲۰۹]
ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک حاجی صاحب اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، چنانچہ حسب معمول شریف یہی استفسار ہوا کہ سرکار میں حاضری ہوئی تو انہوں نے آب دیدہ ہو کر عرض کیا جی حضور مگر صرف دو دن قیام رہا، اعلیٰ حضرت نے فورا ًان کی قدم بوسی فرمائی اور ارشاد فرمایا، وہاں کی (چند)سانسیں بھی بہت ہیں، آپ نے تو بحمد اللہ دو دن قیام فرمایا۔ [حیات اعلیٰ حضرت،ص۲۰۹]
Comments are closed.