افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر!!!

نور اللہ نور
میرے گفتگو کی جو سرخی ہے وہ علامہ اقبال کے ایک شعر کا ٹکڑا ہے جس میں علامہ کی دور رس نگاہوں نے امت کو ایک پیغام دیا کہ اگر عروج و ارتقاء کے مراحل طے کرنے کی متمنی ہو اور عالمی دنیا پر اپنی ایک شناخت ثبت کرنے کا خواب دیکھتے ہو! تو یقین مانو اس کے لیے ہر ہر فرد کو آگے آنا ہوگا ، عروج و ارتقاء کی اس راہ میں ہر ایک کو اپنے حصے کی سعی کرنی ہوگی ، رجال سازی اور مردم سازی کا عمل اپنانا ہوگا تب جاکر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے.
ایک مقولہ ہے ” چراغ تلے اندھیرا” وہ ہم قوم مسلم پر صادق آتا ہے اغیار نے علامہ کے اس تاکید پر عمل کرتے ہوئے اور اس نسخے کو بروئے کار لاتے ہوئے فلک کی بلندی تک رسائی کرلی ، چاند پر کمندیں ڈال لیں ، اختراعات و ایجادات میں ساری دنیا کو اپنا محتاج بنا لیا.
اس کے برعکس جو مخاطب تھے اور جن کو متنبہ کرنا تھا ، جن کو اس سے سبق لینا تھا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئے ، کرہ ارض پر سب سے مجبور و مقہور بن گئے اور وہ قوم جن کا ستارہ کبھی بلندی پر تھا تاریکی اور گمنامی ان کا مقدر ہوگئی.
اگر ہم اپنی پستی کے وجوہات کو تلاش کریں ، اپنی خامیوں کی خانہ تلاشی لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ نہ تو ہم نے کسی افراد کو پیدا کیا اور نہ ہی کوئی ذی شعور فرد پیدا ہوا جو ہماری کمیوں کی نشاندھی کرسکے اور ہمارے غموں کا مداوا و علاج کرسکے اور اگر کسی نے ہمیں بیدار کرنے اور جگانے کی جسارت کی تو ہم اور ہمارے لوگوں نے اسے دیوانہ کہا مجنوں کہا.
تنکے کو جوڑ آشیانہ تیار ہوتا ہے ملت کا ہر فرد ہمدوش ہوتا ہے تب جاکر انقلاب آتا ہے ، زمانہ اسے یاد رکھتا ہے ، یک جہتی سے دشوار گزار راستے آسان ہوجاتے ہیں.
ہم رسوائی و پسپائی کا رونا روتے ہیں اپنے ظلم و استبداد پر نالاں ہوتے ہیں مگر اس کی تلافی کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے ، ہمیشہ انصاف کے حصول کے لئے کسی دوسرے کی بیساکھی کے منتظر ہوتے ہیں اس کے علاؤہ ہم نے کبھی کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا اور نہ ہی رجال سازی پر کام کیا جو ہمارے آواز بنتے.
ہم پر ظلم اس لئے ہورہا ہے کہ ہماری قوم گونگ ہوچکی ہے اس کے پاس کوئی ایسا جگر والا نہیں ہے جو ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرسکے.
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے سب سے ضروری پہلو تعلیم سے آراستہ ہونا ہے اور تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے دنیا جیتی جاسکتی ہے مگر ہم اس باب میں نہتے ہیں ہمارا اسی فیصد بچہ تعلیم سے بیزار اور دوری بنایا ہوا ہے ایسے میں کون ہماری نمائندگی کرےگا ، کون ہمارے ظلم پر آواز اٹھائے گا؟
سیاسی میدان میں بھی ہم برادران وطن سے بہت پیچھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا بول بالا ہے اور اپنی ذہنیت کو بڑی آسانی سے پھیلا رہے ہیں ، سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے ہمارا استحصال و استعمال ہورہا ہے ،ہم نے صرف ووٹ دیا کبھی ووٹ لیا نہیں کیونکہ ہم سیاسی طور پر بھی ہم لوگ مردہ ہوچکے ہیں.
ہمارے بے شمار نوجوان ناحق سلاخوں میں بند ہیں مگر ایسا کوئی اچھا اور قابل وکیل ہمیں دستیاب نہیں جو ان کے مقدمات کو لڑ سکے ان سے بڑی بد نصیبی کیا ہوگی کہ جب بابری مسجد کا کیس چل رہا تھا اس کا بھی وکیل ایک غیر مسلم تھا کیونکہ ہم نے وہ افراد تیار ہی نہیں کیے جو ہمارے لئے مقدمے لڑے ہماری طرف سے وکالت کرے.
اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد بھی صفر کے درجے میں بہت ہی کم طالب علم ہیں جو اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہوں اور جب پڑھے لکھے لوگوں سے معاشرہ خالی ہوگا تو وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے
ہم نے جب تک تعلیم کو عام کیا اور ترقیاتی امور پر توجہ دی تب تک ہم بر سر اقتدار رہے مگر اس کے بعد جب ہم نے تعلیم سے دوری بنالی تو رسوائی مقدر ہوگئی.
ہماری رسوائی اور پستی کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ ہم نے کسی بھی شعبہ میں ملک و ملت کے لئے قابل قدر تعاون نہیں کیا ، ہم نے افراد سازی اور مردم گری پر توجہ نہیں کی جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ذلیل و رسواء ہیں.
اگر ہم ترقی کی معراج کے خواہاں ہیں تو ہمیں ہر شعبے میں اپنے افراد کو پیدا کرنا پڑے گا جو اس شعبے میں ہماری نمائندگی کرسکے.
ضروری ہے کہ ملت کی فلاح کے لیے ہم سب اپنے حصے کی سعی کریں اگر استطاعت ہے تو ایسے افراد بنانے کی فکر کریں جو ہماری آواز اور ہمارا حوصلہ بن سکے
موجودہ حالات میں مصائب کے دفاع کے لیے نہ ہمارے کوئی اچھا وکیل ہے نہ سیاست میں کوئی نمائندگی ہے اور نہ پریس اور میڈیا میں ہماری ترجمانی کرنے والا موجود ہے ایسی صورت میں جو حال ہمیں در پیش ہیں ہم اسی کے لائق ہیں کیونکہ ہم میں سے کسی نے اس کی فکر کی نہیں کی.
ایسے پر آشوب دور میں ہماری زمہ داری ہے کہ پہلے اپنی جانب سے تعاون کی کوشش کریں اور اگر ممکن نہ ہو تو ایسے افراد پیدا کریں جو قوم و ملت کا درد رکھتے ہیں اور جو ہماری نمائندگی کرسکیں.
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Comments are closed.