شوق کتب اور ذوق مطالعہ

محمد قاسم اوجھاری
مطالعہ کا ذوق اور شوق ہر زمانہ میں رہا ہے ہر دور میں ایسے لوگ پائے جاتے رہے ہیں جنہوں نے کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، سر دست دو تین واقعے پیش ہیں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ اپنے گھرانے اور خود اپنے ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہمارا گھرانہ علماء ومصنفین کاگھرانہ ہے، والد صاحب اپنے زمانہ کے عظیم مصنفوں میں تھے، خاندانی وموروثی اثرات بڑے طاقتور ہوتے ہیں، وہ نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں، اور بچوں اور بچیوں سب میں ان کے اثرات کم و بیش پائے جاتے ہیں، کچھ یہ آبائی اثر، کچھ والد صاحب کے ذوق و انہماک ہمارے سارے گھر پر کتابی ذوق سایہ فگن تھا، کتب بینی کا یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لت اور بیماری کی حد تک پہونچ گیا تھا کہ کوئی چھپی ہوئی چیز سامنے آجائے تو اس کو پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتے تھے، ہم بھائی اور بہنوں کو تھوڑے پیسے دست خرچ کے لئے ملتے یا خاندان کے کوئی بزرگ جاتے ہوئے ( اس زمانے کے خاندانی رواج کے مطابق) بچوں کو روپیہ دے جاتے، اس کا ایک ہی محبوب مصرف تھا کہ اس سے کوئی کتاب خریدی جائے۔ اس سلسلہ میں خود میری ایک دلچسپ کہانی سنتے چلئے کہ میرے پاس اس طرح کچھ پیسے آگئے، وہ ایک دو آنے سے زیادہ نہ تھے، میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کتب فروشوں ہی کے یہاں ملتی ہے، اور ہر چیز کی دکان الگ ہوتی ہے، میں امین آباد گیا، گھنٹہ گھر والے پارک کے سامنے بڑی دکانوں کی جو قطار ہے، اس میں کسی دوا فروش کی دکان پر پہونچا، غالبا سالومن کمپنی تھی، میں نے پیسے بڑھائے کہ کتاب دیجئے، دکان پر کام کرنے والے نے سمجھا کہ کسی شریف گھرانے کا بھولا بھالا بچہ ہے، کیمسٹ کی دکان پر کتاب کیا ملتی دواؤں کی فہرست اردو میں تھی انہوں نے وہی بڑھادیا، اور پیسے بھی واپس کردیئے، میں پھولے نہ سماتا تھا کہ کتاب بھی مل گئی اور پیسے بھی واپس ہوگئے، خوش خوش گھر پہونچا، اور اس سے اپنے چھوٹے سے اس کتب خانہ کو سجایا جو والد صاحب کے یہاں کی ان کتابوں سے بنایاتھا، جو ان کے لئے بے کار تھیں اور وہ ردی میں ڈال دیتے تھے، یہی شوق میری دونوں بہنوں کا تھا کہ کتاب کے بغیر ان کو چین ہی نہیں آتا تھا ( کاروانِ زندگی: ۱/۵۸)
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس ناکارہ کا معمول ۱۳۳۵ھ سے ایک وقت کھانے کا ہوگیا تھا۔۔۔ کہ رات کو کھانے میں مطالعہ کا حرج ہوتا نیند بھی جلد آتی تھی، پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا، ابتداءً میری ایک چھوٹی بہن کھانا لے کر اوپر میری کوٹھری میں پہنچ جاتی تھی اور لقمہ بناکر میرے منہ میں دیتی تھی اور دیکھتی رہتی تھی کہ جب منہ بند ہوجاتا تو دوسرا لقمہ دے دیا کرتی تھی، اس ناکارہ کو التفات بھی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کھلایا ایک دو سال بعد اس کو بھی بند کردیا، اس زمانے میں بھوک تو خوب لگتی مگر حرج کا اثر بھوک پر غالب تھا۔ ( متاعِ وقت اور کاروانِ علم :۲۸۴)
مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ کے بارے میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں: کہ جب والد صاحب کا رشتۂ تلمذ شاہ صاحب کشمیری ؒ کے ساتھ قائم ہوا تو جو علمی مذاق گھٹی میں پڑا تھا اسے اور جلا ملی اور وسعتِ مطالعہ، تحقیق وتدقیق اور کتب بینی کا صرف ذوق ہی نہیں بلکہ اس کی نہ مٹنے والی پیاس پیدا ہوگئی، حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کو جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تو میں اکثر دار العلوم دیوبند کے کتب خانے میں چلا جاتا تھا، وہ وقت ناظم کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا، اس لئے ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میری وجہ سے چھٹی کے بعد بھی کتب خانے میں بیٹھے رہیں، چنانچہ میں نے انہیں باصرار اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا جائیں، چنانچہ ایسا ہی کرتے اور میں ساری دوپہر علم کے اس رنگارنگ باغ کی سیر کرتا رہتا تھا۔ ( میرے والد میرے شیخ :۱۲)
Comments are closed.