یہ امیرشریعت کاانتخاب نہیں ہماری بصیرت کا امتحان ہے

امارت شرعیہ تنازع کا واحد حل

جمیل احمد قاسمی

مجھے نہیں معلوم اس میں کتنی سچائی ہے کہ جس زمانے میں سائنس وٹیکنالوجی کی ایجادات واختتراعات سے دنیا آشنا ہو رہی تھی اس وقت الفارابی۔الذہراوی ۔المسعودی۔ابنالھیثم۔ابن سینا اور ارسطو وافلاطون کے وارث سلاطین ایک طرف عیاشی وفحاشی اور آرام طلبی میں ناک تک ڈبوئے ہوۓ تھے ۔ دوسری طرف علماء فقہاء ودانشوران ہر روز چوک چوراہوں گلیوں اور بازاروں میں اس مسئلہ پر مناظرہ کرنے میں مشغول و منہمک تھے کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں ؟۔ کوا حرام ہےیاحلال؟۔ مسواک کا شرعی سائز کیا ہونا چاہیے؟ . ابھی مناظرہ کا دور دورہ چل ہی رہا تھا کہ بغداد پر تاتاریوں نے ایسا حملہ کیا کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا ۔ کوے کی حرمت حلت پر مناظرہ کرنے والوں کو کوے نوچ نوچ کر کھانے لگے۔ نہ انہیں مسواک کی سنت کام آسکی نہ کوئی فرشتہ مدد کو آسمان سے نازل ہوا ۔ مجھے یہ تمہید اس لئے بیان کرنی پڑی کہ اس وقت کا ہلاکو اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارے اوپرحملہ آور ہوئے کو تیار ہے۔ہمیں مار نے کاٹ دینے وطن عزیز سے بے دخل کر دینے پر آمادہ ہے —

۔یہ وطن عزیز کو اسپین۔برما اور اسرائیل کی طرح مسلمانوں سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو گالی گلوج۔ الزام تراشی۔ شکوہِ شکایت کی دور میں دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے میں مصروف ہیں۔ دوسروں کی تحقیر وتذلیل ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔

پہلے ہم شیعہ سنی دیوبندی بریلوی کے نام پر لڑ رہے تھے۔ اب جاہ و حشمت اور عہدہ کے لیے لڑ رہے ہیں۔

ہماری حالت اس وحشی جانور سے بھی بد تر ہو گئی ہے جو جنگل میں جب خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اکھٹا ہو جاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہمارے چاروں طرف خطرہ ہی خطرہ ہے اور ہم آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایسا کون ہوگا جو امارت شرعیہ کے موجودہ حالات سے واقف نہ ہو ۔

امیر بننے بنانے اور نہیں بننے دینے کی کوشش میں لوگوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ بد اخلاقی کے سارے تیر خالی کردئیے گئے ہیں اور کردار کشی کے سارے حدود توڑ دئیے گئے ہیں

۔گھٹیا وبازاری زبان میں باتیں کی جا رہی ہیں اب صرف ماں بہن بیٹی کی گالی بکنا باقی رہ گئی ہے ۔

یہ سب ہو رہا ہے اس ادارہ کے نام پر جسکو قائم ہی کیا گیا تھا جھگڑا لڑائی کو شرعیی اصول پر ختم کرنے کے لئے۔

افسوس کہ آج یہ عظیم الشان ادارہ خود ننگا ناچ کا شکار ہو گیا ہے اس سے امارت شرعیہ کا وقار تو تار تار ہوا ہی ہے اب اس کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے گزشتہ کئی مہینوں میں اس تعلق سے بے شمار تحریر و تنقید اور تبصرے دیکھنے اور پڑھنے کو ملے ہیں۔

ایک بھی ایسی تحریر نہیں ملی جس میں ملت کے درد کا احساس ہو۔ جس میں کوئی ایسا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہو جس سے ارباب حل و عقد یا ارکان شوری کو معاملہ سلجھانے میں تقویت ملتی ہو کتنی عجب بات ہے لوگ اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر ہاتھ سیکتے ہیں ۔ اپنی عزت شوکت کا فالودہ بنا کر جشن مناتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ دنیا کو شرم آنےگی تو اپنی آنکھیں بند کر لےگی۔ مگر دنیا سب دیکھ اور سن سمجھ رہی ہے۔ وہ کسی کو عرش پر پہنچا نا جانتی ہے تو فرش پر پر دے مارنے کا ہنر بھی رکھتی ہے – اتنی بات تو سب کی سمجھ میں آتی ہے کہ امیر شریعت کے انتخاب کا طریقہ غلط تھا جس کے نتیجے میں دشنام طرازی اور الزام تراشی یا لابنگ و گروہ بندی کی نوبت آ گئ۔ مگر جب اس طریقہ انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ تو ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور سر جوڑ کر اس قضیہ کا تشفی بخش حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صرف امیر شریعت کا انتخاب نہیں ہمارے شعور وبصیرت کا امتحان بھی ہے ۔

اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیئے تو سمجھ لینا چاہیےکہ ہمارے اندر نہ دین وشریعت کی کارفرمائی ہے اور نہ ہم اپنے اکابرین کے سچے وفادارو جا نشین ہیں اور نہ ہمارے اندر دینی سیاسی و سماجی شعور ہے

امارت شرعیہ کا قضیہ اب جس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ ارباب حل و عقد متحد ہو کر۔ فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کو امیر شریعت مولانا انیس الرحمن قاسمی کو نائب امیر شریعت انجینئر احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو ناظم عمومی اور شمشاد رحمانی کو نائب ناظم منتخب کریں۔ تاکہ جہاں فقیہ العصر کی جہاں آرا شخصیت۔ مولانا انیس الرحمن کا طویل تجربہ۔ فیصل رحمانی۔ کا بیرون سے رابطہ امارت کو تقویت بخشے گا وہیں شمشادرحمانی پر امیر شریعت سابع کی نظر انتخاب امارت کو کام آجائے گی۔ اور سب کے سب شیر و شکر ہو جائینگے۔

مگر یہ کام اب اتفاق رائے سے ہونا تقریباً نا ممکن لگ رہا ہے۔ اس لیے ارباب حل و عقد و ارکان شوری کو چاہیے کہ مجسٹریٹ لیبل کے مسلم افسران کی مشاہد کمیٹی کی نگرانی میں بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخاب کرائے اور بیلٹ پیپر میں ان کا نام بطور امیدوار ہرگزنہیں شامل کرے جو اوصاف امیر کا حامل نہ ہو۔ اور اور ایسے ارباب حل و عقد کو ووٹ دینے کا حق ہرگزنہیں دیا جائے جن کی نامزدگی امیر شریعت سابع کے انتقال کے بعد ہوئی ہے۔

یہ انتخاب ارباب حل و عقد کے اجلاس میں کرایا جائے اور اسی وقت اسٹیج سے نتیجہ کا اعلان کر کے سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جائے میں سمجھتا ہوں تنازع ختم کرنے کا اس سے بہتر دوسرا طریقہ نہیں ہو سکتا

جمیل احمد قاسمی

صوبائی سینیرسیکنڈری اسکول منگرونی.

( مدہوبنی)

Comments are closed.