انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے۔

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
یہ دور ہوا و ہوس، خود غرضی و مفاد پرستی اور نفسانیت کا ہے، نفسانیت، مفاد پرستی ،کرسی و اقتدار کی حرص و ہوس اس دور کی بہت بڑی بیماری ہے، اچھے اچھے باشرع لوگ اور مصلح و مربی ہونے کے دعویدار، حضرات بھی عہدہ و کرسی کی ہوس میں بری طرح گرفتار ہیں۔ اقبال مرحوم نے بالکل سچ فرمایا تھا کہ
براہیمی نظر مشکل سے ہوتی ہے، مگر پیدا
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
ایثار، ترجیح، قربانی اور بڑوں کی اطاعت و فرمانبرداری، ادب، تہذیب، ذاتی مفاد پر ملت کے مفاد کو ترجیح دینا، اپنی انا کو فنا کردینا، نفس کو مٹانا،ملت کے لیے قربان ہوجانا،یہ سب وعظ و نصیحت اور تعلیم و تبلیغ ، سب اسٹیج کی حد تک ہیں، ہر شخص جو واعظ و مقرر اور رہبر و رہنما ہیں، وہ لوگ صرف دوسروں کو ان چیزوں کا محتاج سمجھتے ہیں اور خود اپنی کمیوں اور خامیوں پر نظر نہیں ڈالتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے لوگ ایسے ہی ہیں، لیکن اکثریت اس مرض کے شکار ہیں، قول و فعل اور کردار و گفتار کے تضاد میں غرق ،نفسیات میں مبتلا ہیں، اور ہوا ہوس میں گرفتار ہیں۔ اس لیے اس بیماری کا علاج اور اس کی فکر سب کو کرنی چاہیے، اس بیماری کی حقیقت اور اس کے علاج کے سلسلہ میں جو کچھ میں نے پڑھا ہے ، سمجھا ہے اور نسخہ کو آزمایا ہے،اس کو پیش کرنے کی جرائت کر رہا ہوں، تاکہ ہم سب اس کی روشنی میں اپنا علاج کرسکیں۔
انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے، جو اس کے اندر گھسا بیٹھا رہتا ہے، یہی نفس اسے شر اور برائی کی طرف آمادہ کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیہ اور راہ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ اگر انسان نفس کی خبر نہ لیں تو یہی نفس سرکش اور آوارہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اسے اس کی شرارت پر ملامت کرتے رہیں، تو وہ نفس لوامہ بن جاتا ہے۔ اور راہ راست پر لانے کی کوشش جاری رہے تو وہ دھیرے دھیرے نفس مطمئنہ بن جائے گا، اور پھر آب اللہ تعالیٰ کےان محبوب بندوں میں شامل ہوجائیں گے، جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے، اور اپنے نقائص اور کمیوں پر نظر رکھے اور اس کا اعتراف کرے۔۔ اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ وہی کرسکتا ہے، جس میں اپنے نقائص جاننے اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور اس کے ساتھ وہ اصلاح پسند ہو کہ اپنے نقائص اور کوتاہیوں کو دور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی ٹڑپ رکھتا ہو۔۔ ایسے شخص سے امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے گا۔
انسان تھوڑی سی غفلت برتتا ہے تو انسان نفس کی گرفت میں آجاتا ہے۔۔ پھر اس کے سارے اعمال، کمال اور خوبیاں نفس کی خاطر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب نفس بے لگام ہوجاتا ہے تو انسان فرعون و ہامان اور ہٹلر اور مسولینی بن جاتا ہے۔ پھر وہ جو کرتا ہے وہی اس کے نزدیک حق اور سچ ہوتا ہے، باقی سب غلط اور باطل قرار پاتا ہے۔
نفس ہی تو ہے جس نے روئے زمین پر قابیل سے ہابیل کا پہلا قتل کروایا تھا، یہ نفس ہی تو ہے جس نے ابو جہل، ابو لہب، عتبہ، شیبہ اور ابی بن خلف کو جہنم کا ایندھن بنا دیا تھا۔۔ یہ نفس ہی تو ہے جس نے مدینہ کے یہود کو ہدایت سے محروم رکھا تھا۔ یہ نفس ہی تو تھا کہ طائف والوں نے حق کی بات سننے سے انکار کر دیا اور آپ کو لہو لہان کر دیا تھا۔ یہ نفس جب زور پکڑ تا ہے تو پھر مخالفت اور تردید کا ایک عجیب و غریب طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ لیبل اور نشان دین کا لگایا جاتا ہے لیکن حقیقتاً کرشمہ نفس کا ہوتا ہے۔ معرکہ میں بڑا کہ تو بڑا ہوتا ہے۔ معاملہ انا، نخوت اور اس کے تقاضوں کا ہوتا ہے۔۔ غرض یہ کہ ہدایت اور حق سے بھٹکنے کا سب سے بڑا ذریعہ خود انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے۔
آج یہی نفس اور نفسانیت امت کی بے چینی اور پریشانی کا سبب ہے، یہی نفس امت کو پنپنے نہیں دے رہا ہے اور اس کو سر بازار رسوا و ذلیل کر رہا ہے۔ ایک امتی ہم ہیں جو اپنی نفسانیت اور ہوا و ہوس اور نفس کی خاطر امت کی شیبہ خراب کر رہے ہیں، اس کی رسوائی کی وجہ اور سبب بن رہے ہیں اور ایک امت کے فرد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے کہ جب ایک بار عین جنگ کی حالت میں معزول کر دیا گیا اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان کا قائد بنا دیا گیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بے نفسی دیکھیے کہ وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے جنگ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اللہ اکبر یہ کیسا بے نفسی کا منظر ہے۔ یہ بے نفسی اسلام کا صدقہ تھی ورنہ کیا کوئی نفس کا اسیر اور نفس میں گرفتار ایک ہی وقت میں قائدانہ حیثیت کے مقابلے میں سپاہی کی حیثیت برداشت کرلے اور پھر عین جنگ کی حالت میں۔
حضرت سید احمد شہیدؒ فرمایا کرتے تھے:
اپنے عمل کے اخلاص کا ثبوت یہ ہے کہ اگر دین کے تعلق سے ہر شعبہ کے کام کرنے والوں کی احسان مندی دل میں ہے، تو سمجھنا چاہیے کہ اخلاص ہے۔۔ اگر احسان مندی کے بجائے رقابت ہے، یا یہ جذبہ ہے کہ یہ کام کیوں ہو رہا ہے، یا اس کا کام بند ہونا چاہیے، یا سب کچھ میں کر رہا ہو اور دوسرا کچھ نہیں کر رہا ہے، اگر ایسا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اخلاص نہیں ہے۔ اپنی نیت کی اصلاح کرے ورنہ کام بند کر دے۔ (نوائے ہادی فروری ۲۰۱۳ء )
اگر ہم مسلمان اس معیار پر اپنے اعمال کو جانچنے اور پرکھنے کی عادت بنا لیں۔تو ان شاء اللہ نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام لگ جائے اور اہل دین کے جھگڑے اور نزاع ان شاء اللہ اپنی موت آپ مر جائیں۔۔ الھم الھمنی رشدی و اعذنی من شر نفسی۔( ترمذی شریف) اے اللہ مجھے میری سمجھ بوجھ الہام کر دے اور مجھے نفس کی برائی سے بچا۔
ناشر: مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، دگھی، گڈا، جھارکھنڈ
Comments are closed.