انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے۔

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے، اس کے علاوہ ہر غلطی اس کے سامنے بونی ہے، دراصل انسانوں میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی غلطی، کوتاہی، کم علمی یا بھول چوک سے پاک ہو؛ حتی کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس سے خالی نہیں، مگر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت و کرم انہیں حاصل ہوتی ہے، اگر وہ بہ تقاضائے بشریت کوئی خطا کر جائیں تو انہیں فوری تنبیہ ملتی ہے اور ان کے فعل کو درست کردیا جاتا ہے؛ لیکن عمومی طور پر انسان کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا البتہ جب کوئی شخص اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے، تو درحقیقت وہ اپنے آپ کیلئے ایک نئی راہ، نئی کھوج بین، نئے معیار اور نئی امید کی جوت جگاتا ہے، انسان جب جب اپنی خطاؤں سے دور بھاگتا ہے، خود کو زبردستی درست ثابت کرنے کوشش کرتا ہے؛ دراصل وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس بات پر مجبور کر رہا ہوتا ہےکہ جو اس کے بَس کی ہے ہی نہیں، وہ خود کو دھوکہ دیتا ہے اور اپنی اندرونی کمزوری کو چھپانے کی کوشش میں نہ جانے کتنے گناہ کر جاتا ہے، کہتے ہیں انسان ایک جھوٹ چھپانے کیلئے سینکڑوں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، ذرا سوچیں! اگر وہیں وہ پہلی دفعہ اس جھوٹ کا اعتراف کر لے اور اپنے آپ کو انسان سمجھ کر معاف کرنے کی کوشش کرے تو وہ کتنی برائیوں سے بچ سکتا ہے، مگر انسان سرکش ہوتا ہے وہ فطری طور پر انا پرست، ناک اونچی رکھنے اور کبر و نخوت کے نام پر کچھ بھی کر گزرنے والوں میں سے ہوتا ہے، یہی وہ اندرونی ضعف ہے جو انسان کو شیطان کا ہمسایہ بنا دیتا ہے، اس کا دوست اور بھائی بنا دیتا ہے، انسان اس سے پہلے وہ یہ سمجھ پائے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور وہ کن چیزوں کی بنا پر مشقتوں کے جال میں الجھتا جارہا ہے؛ وہ اتنا دور ہوتا جاتا ہے کہ رب ذوالجلال کو بھی فراموش کرنے لگتا ہے، وہی ایک پہلی غلطی اور اس پر اصرار نے آخر اسے اس گھڑی پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب وہ خود ہی سب کچھ مان بیٹھا ہے، اور انا ربکم الاعلی کی صدائیں لگانے لگتا ہے، کاش! انسان اپنی پہلی غلطی پر ہی انسان کا سا مظاہرہ کر دیتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اس موضوع پر مولانا وحیدالدین خان مرحوم کی ایک اچھی تحریر بعنوان غلطی کا اعتراف موجود ہے، جو پڑھنے کے قابل ہے، مولانا لکھتے ہیں: "غلطی انسان کی صفت ہے (to err is human)۔ عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کا کھلے انداز میں اعتراف نہیں کرتے۔ طرح طرح کے الفاظ بول کر وہ اس کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ عادت بہت زیادہ عام ہے۔ مگر یہ ایک مہلک عادت ہے۔ غلطی کا اعتراف اتنا زیادہ مفید ہے کہ اگر لوگ اس کو جانیں تو وہ اس کو اپنی ذہنی ارتقا کے لیے ایک سنہری موقع (golden chance) سمجھیں۔ اور ایک لمحےکی تاخیر کے بغیر فورا کہہ اٹھیں کہ میں غلطی پر تھا: – I was wrong – جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو آپ اپنے ذہن کو ایک سگنل (signal) دیتے ہیں۔ یہ سگنل کہ علم کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جہاں تک ابھی تمھاری پہنچ نہیں ہوئی۔ یہ سگنل آپ کے ذہن کو مثبت سمت میں متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح آپ کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بار جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو ہر بار آپ اپنے ذہنی ارتقا کے لیے ایک تخلیقی دروازہ (creative door) کھول دیتے ہیں۔ آپ اپنے اندر ایک ایسا فکری عمل (intellectual process) جاری کردیتے ہیں، جو کسی اور طریقے سے جاری نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے غلطی کا اعتراف کرنا ایک موقع (opportunity) کو استعمال کرنا ہے۔ اور غلطی کا اعتراف نہ کرنا ، ایک موقع کو کھودینا ہے، جو دوبارہ کبھی آنے والا نہیں۔غلطی کا کھلا اعتراف کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کا مزاج ہے۔ اور تواضع اپنے آپ میں ذہنی اور روحانی ارتقا کا ایک عظیم خزانہ ہے۔ جو آدمی تواضع سے محروم ہے، وہ معرفت سے بھی محروم رہے گا۔ تواضع سے محرومی آدمی کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کردیتی ہے۔ اور تواضع کا مزاج آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کے دروازے کھول دیتا ہے، حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہیں رہتا۔” (الرسالہ اپریل: 2017)

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.