اپنی اہمیت سے نا آشنا مسلم لیڈران

از: محمد اللہ قیصر
جو اپنی ذاتی قوت و صلاحیت سے نا آشنا ہو وہ لیڈر کیسا، اپنی طاقت کا احساس ہی معدوم ہو تو قیادت خاک کرے گا، اپنے ہمنوا اور معاونین کے کس کام کا ہوگا؟ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کے جو بھی مسلم چہرے ہیں، وہ عضو معطل کی طرح ہیں، شاید اپنا کام نکال لیتے ہوں، لیکن قوم کیلئے آج تک کوئی کام نہیں کر سکے، کام تو دور قوم جب ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی ہے، تو بھی ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں، ضمیر بہت ملامت کرتا ہے تو اپنی اعلی قیادت سے اجازت لے کر چند الفاظ بول دیتے ہیں، اب تک یہی سنتے آرہے تھے کہ پارٹی کی اعلی قیادت کے نزدیک ان مسلم لیڈران کی حیثیت ” ڈسپوزل” اور "ٹیشو پیپر”جیسی ہے، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ آخر ان کی اہمیت کیوں نہیں، جبکہ کسی بھی پارٹی میں چند ووٹ اکٹھا کرنے والوں کو بھی سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، اور ہمارے ان مسلم لیڈران نے تو پوری قوم کو ہی پارٹی کا ” غلام بے دام” بنا دیا ہے، قوم مسلم کی نسلیں ان پارٹیوں کی "بیگاری” میں گذر گئیں، حتی کہ ان کی ذہنیت ایسی ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقہ کے نزدیک ان پارٹیوں سے دوری کا تصور بھی حرام ہے، اپنی پارٹی اپنی قیادت کی بات کرنا جرم ہے، پھر ہمارے لیڈران کی اہمیت و وقعت کیوں نہیں، اعلی قیادت پر ان کا اثر کیوں نہیں ہوتا، ان کی چیخیں صدا بصحرا کیوں ثابت ہو جاتی ہیں،
ابو عاصم اعظمی صاحب کے حالیہ بیان نے سارے پردے اٹھا دئے، ایک ایسا لیڈر جو ہندستان میں مسلمانوں کی بے باک آواز سمجھا جاتا ہے، سماج وادی میں اعظم خان صاحب کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا چہرہ تصور کیا جاتاہے، اس نے جب اپنے دل کی بات کہی تو یہ پتہ چلا کہ در حقیقت ہمارے جتنے مسلم لیڈران ہیں وہ خود اپنی ذات سے نا آشنا ہیں، وہ اپنی قوت کے سرچشمہ سے ناواقف ہیں، خود اپنی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں، اپنے ہمنواؤں کی ہمنوائی کا احساس ہی نہیں، انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ کون ان کے دست و بازو ہیں، ان کی قوت کا راز کیا ہے، ظاہر ہے جب یہ احساس ہی نہیں ہوگا تو اپنی پارٹی کو اپنی قوت کا احساس کس طرح دلا سکتے ہیں، ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی بنا پر پارٹی میں ان کی حیثیت "خادم خاص” سے زیادہ کی نہیں، جنہیں پارٹی میں صرف اسلئے جگہ ملی ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان پارٹی کی نمائندگی کریں نہ کہ پارٹی میں مسلمانوں کی نمائندگی، اور یہ سب اپنی "بے لوث خدمت” سے مطمئن ہیں۔
انہیں خود اپنی اہمیت کا احساس نہیں، لہذا انہوں نے اپنی پارٹی کو یہ احساس دلانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ پارٹی کا وجود ہم سے ہے ہمارا وجود پارٹی کا مرہون منت نہیں، انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ پارٹی کو جو بھی مسلم ووٹ حاصل ہوتا ہے وہ دراصل خود ان لیڈران کا ووٹ ہے، مسلمان اس پارٹی کو نہیں اپنے مسلم لیڈران کو ووٹ دیتے ہیں، جیسے دوسرے مذاہب اور ذات برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے لیڈران کی ہمنوائی کرتے ہیں، انہیں یہ احساس دلانا چاہئے تھا کہ اگر سماج وادی کو مسلمانوں کا ووٹ ملتا ہے تو اس کی وجہ اعظم خان، ابو عاصم اعظمی اور پارٹی کے دیگر مسلم لیڈران ہیں، نہ کہ اکھلیش اور ملائم، انہیں ان کی یادو برادری ووٹ دیتی ہے، اگر یہ مسلم لیڈران نہ ہوں تو کوئی مسلمان انہیں ووٹ نہیں دے سکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ ابو عاصم اعظمی صاحب جیسے بے باک، قوم کے وفادار اور بہادر انسان کا حالیہ بیان ان کا موقف نہیں بلکہ یہ مسلم لیڈران کے اندر پنپنے والے احساس کمتری کی عکاسی کرتا ہے، اس بیان کو مسلم۔لیڈران کے دلوں کا درد اور اپنی قوم سے شکوہ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا، قوم بھی اپنے رویہ میں تبدیلی لائے تو شاید مختلف پارٹیوں کے مسلم لیڈران اپنی قوت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی اپنی پارٹیوں کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوں، کہ مسلم ووٹ مسلم لیڈروں کے بل پر ہے، پارٹی اور پارٹی کی قیادت کے بل پر نہیں، اس طرح مسلم لیڈران اور مسلمانوں کے تئیں پارٹی کی اعلی قیادت کا رویہ بدل سکتا ہے، اور جس طرح دوسری ذات برادری سے تعلق رکھنے والے لیڈران اپنی ذات کیلئے پارٹی سے کام لیتے ہیں وہ مسلم لیڈروں کیلئے بھی ممکن ہو جائے۔
اعظم خان جیسے چوٹی کے لیڈر کو اگر پارٹی کا تعاون نہیں ملتا ہے، تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے، کہ اعلی کمان کو یقین ہے کہ اعظم خان کی جگہ کوئی اور مسلم چہرہ پیش کرکے مسلمانوں کا ووٹ انہیں آسانی سے مل ہی جائے گا، اعظم خان کو نظر انداز کرنے پر مسلمانوں کو کوئی شکایت نہیں ہوگی، تو خود کو تھکانے کی ضرورت کیا ہے، جھمیلے میں پڑنے کا کیا فائدہ؟ یہاں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ سماج وادی پارٹی کو اعظم خان سے تجاہل برتنے کی سزا دیں، اور سماج وادی کے مسلم لیڈران اعظم خان میں اپنا انجام دیکھیں، اور اعلی قیادت کو سمجھائیں انہیں احساس دلائیں کہ اب بھی ہوش میں آئیں، مسلم لیڈران کو اہمیت دیں، ان کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھیں، بندھوا مزدور سمجھنے کی روش چھوڑ دیں، ورنہ ہم کسی کے پابند عہد نہیں۔
بات صرف سماج وادی پارٹی اور اعظم خان تک محدود نہیں ہے، ہر پارٹی کا یہی حال ہے، کانگریس، بی ایس پی، راجد سب کا رویہ مسلم لیڈروں کے ساتھ سوتیلا اور ہتک آمیز ہی ہے، اور وجہ یہی ہے کہ مسلمان ان پارٹیوں کو اپنے لیڈروں کی وجہ سے ووٹ دیتا ہے، لیکن احساس نہیں دلاتا، کہ ہم تمہارے ساتھ اسلئے ہیں کہ ہمارا لیڈر تمہارے ساتھ ہے، اور جس پارٹی میں ہمارے لیڈر کی اہمیت نہیں وہ ہمارے ووٹ کا ہر گز مستحق نہیں، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔اور سب سے بڑی ذمہ داری خود لیڈروں کی ہے، وہ سب سے پہلے اپنی ذات کو پہچانیں، اپنی قوت کا ادراک کریں، اپنی اہمیت کا احساس پیدا کریں، پھر پارٹی کی قیادت کو اپنی قوت کا احساس دلائیں، پارٹی کو دوٹوک بتائیں کہ مسلمان آپ کو نہیں، ہمیں اپنا لیڈر مانتا یے، مسلمانوں کا لیڈر مسلمان ہی ہے، وٹ آپ کو نہیں اپنے لیڈر کو دیتا ہے، پارٹی کا تعاون بلا واسطہ نہیں بالواسطہ کرتا ہے، اور وہ واسطہ مسلم لیڈران ہیں، اسلئے اگر مسلم لیڈران نظر انداز کئے گئے، تو ہم کسی پارٹی کے زرخرید نہیں، کہ تذلیل و توہین کی ساری حدیں پار کردیں جائیں پھر بھی ہم چلمن سے لگے بیٹھے رہیں۔
Comments are closed.