آر ایس ایس چیف بھاگوت جی کی سبق آموز باتیں

تحریر : مسعود جاوید
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت جی نے کل اتوار کو اتراکھنڈ میں ایک جلسے کو خطاب کیا جس میں گرچہ ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے اصلاحی باتیں کی ہیں لیکن ان باتوں سے مسلمانوں کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے۔
بھاگوت جی نے تبدیلئ مذہب کو اپنی تقریر کا موضوع بناتے ہوئے کہا کہ شادی کے لئے دوسرے مذہب اختیار کرنے والے ہندو غلط کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مفاد کے لئے ایسا اس لئے کیا جا رہا ہے کہ ہندو پریوار اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور روایت کا احترام کرنا نہیں سکھا رہے ہیں ۔ ہندو اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور روایت کا احترام کرنا سکھائیں تاکہ وہ دوسرے مذاہب میں نہ جائیں۔
اپنے گھروں کی لڑکیاں دوسرے مذاہب میں کس طرح چلی جاتی ہیں ان کا دل و دماغ کس طرح بدل جاتا ہے ؟ ظاہر ہے شادی کرنے کے لئے جو کہ چھوٹا مفاد ہے۔ شادی کے لئے من بدلنے والے ہندو غلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں اس کی تربیت گھروں میں کرنی ہوگی اور بچوں کو اپنے دھرم پر فخر اور پوجا کی بنیاد سکھانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کا مقصد ہندو سماج کو متحد کرنا ہے لیکن جب آر ایس ایس کا پروگرام منعقد ہوتا ہے تو اس میں خواتین نظر نہیں آتیں! اگر آپ سماج کو متحد کرنا چاہتے ہیں تو ان پروگراموں میں 50 فیصد خواتین کی موجودگی بھی ہونی چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ والدین کو ٹی وی، فلم اور انٹرنیٹ پر بچے کیا مواد دیکھتے ہیں اس سے باخبر رہنا چاہیئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہے کہ کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے۔ ‘
۔۔۔۔
اگر ایمانداری سے تجزیہ کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہونچیں گے کہ اگر اس تقریر کے متن میں موہن بھاگوت کا نام حذف کر کے مولانا سلطان العارفین کا نام لکھ دیا جائے اور ہندو لڑکیوں اور لڑکوں کی جگہ مسلم لڑکے اور لڑکیوں کا ذکر کیا جاۓ تو یہ مسلمانوں کا اصلاح معاشرہ، سد ارتداد پروگرام کی تقریر کا حصہ محسوس ہوگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوؤں کے مرد حضرات شاذونادر ہی گھروں پر پوجا پاٹ کرتے ہیں یا مندر جاتے ہیں۔ یہ کام ان کے یہاں عموماً خواتین کرتی ہیں۔ وہی آرتی اتارتی ہیں اور بہت ہوا تو پرساد گھر کے مردوں کو کھانے کے لئے دے دیتی ہیں۔
الحمدللہ مسلمانوں میں یہ تفریق نہیں ہے۔ لیکن عمومیت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ آج مسلمانوں کی نصف آبادی مساجد اور اصلاحی پروگراموں سے دور ہیں۔ مساجد میں ان کے نہیں جانے کی وجہ عورتوں کو نجس یا کمتر سمجھنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مردو زن کے اختلاط کے مدنظر ہے۔ جن مساجد میں مصلی النساء یعنی عورتوں کے لئے الگ دروازے ، وضو خانے، واش روم اور نماز کے لئے سیکشن ہوتے ہیں وہاں خواتین بلا روک ٹوک جاتی ہیں خصوصاً وہ خواتین جو مسجد کے اطراف میں مارکیٹنگ یا کسی اور کام سے ہوں اور جماعت کا وقت ہوگیا ہو۔
گھروں میں تربیت اور سنسکار سکھانا، عبادت اور عقیدہ کی بنیاد سے بچوں کو واقف کرانا اور اپنے دین کا احترام کرنا ۔۔۔۔ بھاگوت جی نے اس کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ہمیں بھی انہی باتوں پر زور دینے کی ضرورت ہے ۔ پہلے اسکول میں داخلہ سے پہلے بچے اور بچیاں محلے کے مکتب میں قرآن مجید اور بنیادی دینی تعلیم پڑھتے تھے۔ استانیاں ہوتی تھیں جو آٹھ دس برس سے زائد عمر کی بچیوں کو قرآن ، بہشتی زیور اور دینیات پڑھاتی تھیں۔ اب بچہ تین برس کا ہوا نہیں کہ ان کا پلے اسکول، نرسری اسکول ، کانونٹ ، انگلش میڈیم اسکول یا دوسرے سرکاری غیر سرکاری میں داخلہ کرانا سب سے اہم ترجیحات میں ہوتا ہے۔ تعلیم کے تعلق سے یہ قابل ستائش ہے مگر دین سے نابلد نہ رہ جائے اس کے لئے عموماً والدین فکر مند نہیں ہوتے۔ مساجد میں مکاتب دینیہ میں بچوں کو بھیجنے یا ٹیوشن کے لئے استاد اور استانیوں کا نظم نہیں کیا جاتا ہے۔
بچے بے راہ روی کے شکار نہ ہو جائیں اس کے لئے بعض گھروں میں تربیت کی جاتی ہے سنسکار سکھایا جاتا ہے لیکن یہاں بھی جتنی توجہ لڑکیوں کے اچھے اخلاق اور تہذیب پر دی جاتی ہے لڑکوں پر نہیں۔ جبکہ اچھے اخلاق سے آراستہ کرنا اور غلط راستے سے روکنے کی ضرورت دونوں جنس کو برابر ہے۔ لڑکا کرے تو جوش جوانی کی غلطی اور قابل نظر انداز لیکن لڑکی کرے تو عیب، باعث شرم اور خاندان کا نام مٹی میں ملانے کے مترادف ہے۔ اسلام میں یہ تفریق نہیں ہے۔
بقول بھاگوت جی دھرم کی بنیاد سے عدم واقفیت کی وجہ سے ارتداد کا ذہن بنتا ہے۔۔۔۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ دین کی بنیادی تعلیمات سے عدم واقفیت اور عقیدہ کو اہمیت نہیں دینا ہی ارتداد کی وجہ ہے خواہ ارتداد شادی کے لئے ہو ، کسی اور ذاتی مفاد نوکری، مال و دولت کے لئے ہو یا اسلاموفوبیا کے ڈر سے ہو۔
جن لوگوں کے دلوں میں مکمل ایمان راسخ نہیں ہوتا ہے وہ بہت ڈرے اور سہمے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنی کلائیوں پر دھاگہ باندھے ہوتے ہیں اور اپنی گاڑیوں پر بھگوا جھنڈے لگاتے ہیں یا غیر مسلموں کا کوئی اور شعار سے اپنی مسلم آئڈیڈنٹیٹی چھپاتے ہیں۔
موہن بھاگوت جی کی مذکورہ باتوں میں قابل اعتراض جو پہلو ہو سکتا ہے وہ اپنی پسند کے مذہب کی اتباع یا کسی مذہب کی عدم اتباع کی دستوری آزادی پر روک ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ تبدیلئ مذہب کا مقصد اور نیت ؛ شادی اور چھوٹے مفاد کی بات کر کے دستوری آزادی میں مداخلت کے اعتراض سے دامن بچا گۓ۔
دوسری بات یہ کہ جو باتیں انہوں نے ہندوؤں کے لئے کی ہیں وہی باتیں مسلمانوں کے لئے کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی طرف سے اگر ایسی بات کی جائے تو ایسے کہنے والوں کو فوراً لبرلز – مسلم و غیرمسلم – طالبانی فرمان اور شخصی آزادی میں مداخلت کا نام دے کر نشانہ بنا سکتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دین اسلام میں داخل ہونا اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ صرف اور صرف اللہ کے لئے ہو۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما الاعمال بالنيات …..الخ
” اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہے، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی”۔
Comments are closed.