کلکی اوتار اور محمد صاحب

 

 

 

مفتی محمد قاسم اوجھاری

 

 

ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ہندو دنیا "کلکی اوتار” کی منتظر ہے، جو ان کا اور پوری دنیا کا رہبر ہوگا، اس اوتار کی تعریف اور شناخت جو ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بیان کی گئی ہے اور ویدوں اور اپنشدوں میں جو علامتیں، نشانیاں، اور وضاحتیں بیان کی گئی ہیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں، ایک ہندو پنڈت نے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور "کلکی اوتار اور حضرت محمد” کے نام سے کتاب لکھی ہے، یہ بھارت میں شائع ہونے والی منفرد کتاب ہے، اس کتاب میں مصنف نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق جس آخری اوتار کی آمد کے منتظر ہیں اور ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کا اور پوری دنیا کا رہنما ہے وہ اوتار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے، یہ کتاب ایک ہندو عالم و فاضل پنڈت ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیائے نے لکھی ہے، جو علم و دانش میں اپنی شہرت رکھتے ہیں، یہ کتاب انہوں نے برسوں کی تحقیقات کے بعد لکھی ہے، اور عجیب بات یہ ہے کہ آٹھ دس دیگر فاضل پنڈتوں نے بھی اس کتاب سے اور اس میں پیش کردہ دلائل سے کلی طور پر اتفاق کیا ہے، اور مصنف کی طرف سے پیش کئے جانے والے تمام نکات کو درست قرار دیا ہے، مصنف کا کہنا ہے کہ تمام ہندوؤں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنے موعودہ اوتار کا انتظار چھوڑ کر حضرت محمد کو آخری اوتار تسلیم کرلیں، بلکہ مصنف نے ان ہندوؤں کو احمق اور عقل سے عاری قرار دیا ہے جو آج کے دور میں کسی نئے شہسوار اور ماہر شمسیر زن کی شکل میں موعودہ اوتار کے منتظر ہیں۔

 

مصنف نے بہت عرصہ غوروفکر کے بعد اس کتاب کو تصنیف کیا ہے، گویا یہ دعوت حق کی داستان ہے، انہوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں اور ویدوں میں غوطہ لگایا تو ان پر منکشف ہوا کہ دین حق در حقیقت ایک ہی ہے، خدا ایک ہی ہے، خدا کے رسول ایک ہی پیغام توحید لے کر دنیا میں آئے، اور ویدوں میں جس آخری پیشوا، پیغمبر اور اوتار کا ذکر ہے، وہ درحقیقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ انہوں نے ویدوں میں مذکور "کلکی اوتار” کی خصوصیات کو سامنے رکھا، اور دوسری طرف سیرت طیبہ پر نگاہ ڈالی، ان کے سامنے حقیقت واضح ہوئی، جس کا انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔

 

کتاب کی تمہید میں مصنف لکھتے ہیں کہ: اسلامی روایات میں جو مقام رسولوں، نبیوں یا پیغمبروں کا ہے وہی مقام ہندوستانی روایات میں اوتاروں کا ہے، مسلمان حضرت محمد کو آخری نبی مانتے ہیں اور ہندوستان میں "کلکی” کو آخری اوتار کہا گیا ہے، دیگر ممالک میں صرف پیغمبر آئے اور ہندوستانی روایات میں صرف اوتار، یہ کیسے ممکن ہے؟ جب کہ ساری زمین اللہ کی ہے۔۔۔ حضرت محمد آخری نبی ہیں، اس حقیقت کو جان کر مجھے شوق پیدا ہوا کہ "کلکی اوتار” کے متعلق سیرت کا مطالعہ پرانوں میں کیا جائے، ہندوستانی روایات کے مطابق پہلے کچھ دور گزر چکے ہیں، موجودہ دور میں جو واقعات رونما ہوں گے، ان کی مطابقت میں نے حضرت محمد کی حیات طیبہ سے کی، تو تقریبا یکساں پایا، میں نے صرف اس مقصد سے اس تحقیقی کام کو ہاتھ میں لیا ہے کہ اللہ کے حکم سے کلام اللہ کی تبلیغ ہو۔۔۔ نام سے کوئی شخص ہندو، عیسائی یا مسلمان نہیں ہو سکتا، مثلا اگر سراج الحق کو ستیہ دیپ، عبد اللہ کو پنڈت رام داس یا رام یش، اور عبد الرحمن کو بھگوان داس کہوں گا تو بیجا نہ ہوگا، کیونکہ ان ناموں کا سنسکرت مفہوم یہی ہوتا ہے، میرے نام کا عربی ترجمہ نور الہدیٰ ہے، اگر وہ چاہیں تو مجھے نور الہدیٰ بھی کہہ سکتے ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ میری تحقیقی کتاب لوگوں میں نیک خیالات پیدا کرے، اور بنی نوع انسان کامیاب ہو۔

 

مصنف نے اس کتاب میں اوتار کے معنی، اوتار کے اسباب نزول، آخری اوتار کی بعثت کے اسباب اور آخری اوتار کی خصوصیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اور دلائل و شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ آخری اوتار (پیغمبر) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، ویدوں اور قرآنی تعلیمات میں مطابقت کو بھی بیان کیا ہے، اور آخر میں تتمہ کے طور پر خلاصہ پیش کیا ہے، جس میں دین حق کا اعتراف، خدا وحدہ کا اقرار اور آخری پیغمبر کو تسلیم کیا ہے، اور تمام لوگوں سے دین حق کی طرف لوٹ جانے کی اپیل کی ہے، اور بڑے عاجزانہ انداز میں کہا ہے کہ: لاٹھیوں کی ضربوں سے مذہب نہیں پھیلتا، بلکہ جب اللہ کے فضل سے لوگوں کو دین حق کا علم ہو جاتا ہے تو خود ہی اس پر عمل کرنے لگتے ہیں، علمائے دین کا فرض ہے کہ وہ دین کے اصولوں سے لوگوں کو واقف کرائیں، عقیدت پیدا ہونے پر عمل کریں گے، فساد کرنے سے کوئی کیوں مانے گا، اللہ کے دین کے مبلغین کو امن و اطمینان کے ساتھ دین کی تبلیغ کرنی چاہیے۔

 

جناب وید پرکاش اپادھیائے صاحب کی یہ تحقیق قابل قدر ہے، یہ ایک نایاب کتاب ہے، اس کتاب کا ہر ایک کو مطالعہ کرنا چاہئے اور بڑے پیمانے پر اس کی نشر واشاعت کرنی چاہیے، مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو اور لوگوں تک پہنچایا جائے، اور سنجیدگی کے ساتھ اس موضوع پر غور وفکر کیا جائے۔

Comments are closed.