کیا انتخابِ امیر شریعت پر ہمارا طریقئہ ردعمل یہی ہوناچاہیے ؟  

 

 

محمد زکریا ممتاز دیناج پور بنگال

 

 

اسلاف امت میں پایا جانے والا اختلاف اس فطری مظاہر کا عکاس ہے کہ اگر اختلاف اپنے حدودسے تجاوز نہ کرے بل کہ اپنے آداب کا پابند ہو ، تو یہ بے شمار فوائد پر منتج ہونے والا مثبت مظہر ہے ، اگر اختلاف اپنی حدود کو پار کر جائے تو یہ اختلاف تخریب و انہدام کا سبب بن جاتا ہے –

 

عہد نبوی میں بھی اختلافات ہوئے ہیں ، خواہ یہ اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سلسلے میں ہو، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے مقام کے سلسلے میں ہو ، یا مانعین زکوٰة سے قتال کے سلسلے میں ہو، ان تمام اختلافات کا تجزیہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے یہاں نفسانی خواہشات کا کوئی گزرنہ تھا،

نفسانی خواہشات سے مکمل اجتناب واحتراز، دوسروں کو اذیت پہنچانے والے الفاظ سےگریز کرتے ہوئے ،اکرام مسلم پر مبنی اسلامی آداب کا احترام اختلاف کا سبب بننے سے پوری طرح بچتے تھے ،اختلافات کو جدال وتنازع کا سبب بننے سے پوری طرح بچتے،

محض حق کی وضاحت کے لیے غوروفکرتھا ، تمام تراختلافات سے ماورا اسلامی اخوت کو مقدم رکھاجاتا ،

لیکن جب سے انتخاب امیر شریعت کا عمل سوشل میڈیا کی نذر کیا گیا ہے ، ہر کوئی ردعمل دینا اپنا فریضہ سمجھا ہوا ہے ، ہر کوئی اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالنے میں ایک دوسرے پرسبقت لےجانے میں لگاہواہے.

 

خصوصا منتخب ہونے کےبعد جوکچھ دیکھاجارہا ہے بہت ہی شرمناک ہے ، تاریخ اسلام کی عظیم ہستیوں میں بھی اختلاف ہوا ہے ، کیا ان اختلافات کو "الاختلاف رحمة واسعتہ ” کی ذیل میں لا سکتے ہیں ؟

نہیں ہرگز نہیں ، کیوں کہ اس کے نام پر جو ہنگامہ پرپا کیا گیا ، اور ناحق اختلاف سے بھی گریز نہ کیا گیا ، جس سے باہمی اختلافات کو نزاع کا سبب بنا کر مسلک وشریعت کی خدمت کم ،  جگ ہنسائی کا سامان زیادہ بن گیا،

اس اختلاف سے آج علمی آداب اور اخلاق کا عمومی زوال دیکھا گیا ، تحمل اور باہمی احترام کی شدید کمی پائی گئ ، چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف بہت جلد اپنی حدود سے آگے نکل گیا،

پھر یہ مسلک وشریعت کی خدمت کیوں کر رہ جائے گی ؟ ان سب باتوں نے اختلاف کی حساسیت آج دو چند کردی ہے، افسوس کہ آج اس کے مظاہر بار بار اور الگ الک پلیٹ فارم پر دیکھے جارہے ہیں

اس صورت حال میں یہ ذہن میں رہے کہ اصل مطلوب شریعت پر عمل ہے نہ کہ کسی کی تائید و تنقید ،

اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی روشنی میں زمانے کے حالات کو سمجھتے ہوئے ، تفرقہ بازی سے گریز کرتے ہوئے ، اس قسم کے اختلافات سے مکمل اجتناب برتاجائے ، فی الحال یہی بہتر ہے ، ورنہ ہمارے یہ اختلافات دوسروں کے لیے ہنسی کا سامان بن کر رہ جائیں گے ۔

Comments are closed.