چھتیس گڑھ میں فرقہ وارانہ تشدد، جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ مسلم گھروں پہ کیا حملہ

 

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )

ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

 

3 اکتوبر کو چھتیس گڑھ کے کبیردھام ضلع کے کورتھا قصبہ میں تشدد کی آگ اُس وقت بھڑک اٹھی جب علاقہ کے مسلمانوں کی جانب سے میلاد النبی کے موقعہ پر ہرے جھنڈے ( سبز پرچم ) لہرائے گئے

لیکن ہندوسینا اور بجرنگ دل کے شرپسند آتنکیوں نے جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے جھنڈوں کو پھاڑا اور آگ لگادیا

جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ، علاقے کے مسلمانوں نے جب اس غنڈہ گردی کی مخالفت کی ۔۔۔۔۔ تو انہیں بےرحمی سے پیٹا گیا، پھر سڑک پہ کھڑی گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا، دکانوں، گھروں میں گھُس کر توڑ پھوڑ اور پتھر بازی شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے تشدد کی آگ سارے شہر میں اس قدر پھیل گئی کہ پولس و انتظامیہ بھی اس پہ قابو پانے مین ناکام نظر آئی

موقعہ پر موجود لوگوں کے مطابق پولس جان بوجھ کر تماشائی بنی رہی اور پولس کی موجودگی میں ہی فسادیوں نے آتنک مچایا، جس کی ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئیں ۔۔۔۔۔

ویڈیوز میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ شرانگیز بھیڑ پولس کے سامنے ہی ایک شخص کے اوپر ٹوٹ پڑی اور اُس پر جان لیوا حملہ کردیا،

گاڑیوں و دیگر عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔

خبروں کے مطابق حالات پہ قابو پانے کے لئے پولس نے فساد زدہ کئی علاقوں مین سیکشن 144 اور کرفیو لگادیا گیا اور سوشل میڈیا پر افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر 3 دنوں کے لئے انٹرنیٹ بھی بند کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔

فی الحال 95 سے زائد نوجوانوں کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے

گرفتار کر لیا گیا ہے اور معاملے کی مکمل جانچ ابھی باقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ سفر نامی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق

شہر کے ہر محلے میں دنگائیوں نے مسلم گھروں کو نشانہ بنایا

اور وہاں کے ممبر پارلیمنٹ راجنند گاؤن سنتوش پانڈے اور سابق ممبرپارلیمنٹ و سابق وزیر اعلیٰ کے بیٹے ابھیشیک سنگھ اور بی جے پی یووا مورچہ کے ریاستی صدر وجے شرما کی رہنمائی میں دن بھر مسلمانوں کے گھروں ، دکانوں اور مدرسوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اس بیچ وہاں پر موجود پولس محض تماشائی بنی رہی

اس دوران ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ممبر پارلیمنٹ دنگائیوں کا شکریہ ادا کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

جب دونوں فرقوں میں محض جھنڈا لگانے کو لے کر جھگڑا ہوا تو بجرنگ دل کے لوگوں نے سبز پرچم کو نکال کر پھاڑ دیا جس کے بعد آپس میں جھڑپیں شروع ہوئی اور اکثریتی فرقہ کے فسادیوں نے قاری شعیب رضا نامی ایک مولوی کو پکڑ کر ان کی بےرحمی سے پٹائی کی جو ان تمام معاملات سے انجان اپنے ذاتی کام سے کہیں جارہے تھے ۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد کچھ ذمہ داروں کی جانب سے شانتی سمیتی میٹنگ کی گئی جس میں یہ طئے ہوا کہ کوئی بھی جھنڈا نہیں لگائے گا ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن 4 اکتوبر کو بجرنگ دل کے آتنکیوں نے پورے شہر میں بھگوا جھنڈا لگادیا اور 5 اکتوبر کو جلوس کے لئے پرمیشن مانگی

ذرائع کے مطابق جلوس نکالنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ شہر میں فساد کروایا جائے ۔۔۔۔۔۔

بتایا جارہا ہے کہ اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی مشکل سے 7 ہزار کے قریب ہے

اور فساد کروانے کی نیت سے اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں نے باہر سے مزید دنگائیوں کو بلوایا اور چن چن کر مسلم گھروں، دکانوں و مسلم املاک کو نقصان پہنچایا جس میں 3 پولس اہلکار سمیت درجنوں سے زائد مسلمانوں کے زخمی ہونے کی خبریں سامنے آئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ہمیشہ کی طرح گودی میڈیا خاموش ہے اس پہ ستم ظریفی ہماری ملی و سیاسی قیادت کو بھی سانپ سونگھ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.