ملک میں سماجی الیکشن کا منظر نامہ سن 2021ء

مولانا محمد انواراللہ فلک قاسمی
رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
ہندستان ایک بڑا جمہوری ملک ہے ، اس کی جمہوریت میں بڑی وسعت ہے ، اس کا دامن کسی بھی ہندستانی باشندوں کے لئے تنگ نہیں ہے بلکہ ہر مذہب و مسلک اور فکرو خیال کے لوگ ، ملک کے دستور و آئین کے دائرے میں اپنے مذہبی امتیازات و خصوصیات اور تہذیب و شرافت کے ساتھ یہاں رہ سکتے ہیں ۔ اسی لئے یہ ملک صدیوں سے مختلف النوع تہذیب و کلچر کا علمبردار رہا ہے اور آج بھی ہے ۔ لیکن جب سے قانون کی بالادستی کو تسلیم نہ کر کے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول اور نجی مفادات کے استحکام کی خاطر انفرادی ، اجتماعی ، مادی اور عسکری قوتوں کا استعمال کیا جا نے لگا ہے اس وقت سے ملک کی پر امن صورت حال تشویش ناک بن چکی ہے ، یہاں تک کے ملک کی عدلیہ ، انتظامیہ اور قانون کے تحفظ کے حلف بردار بھی تجاوز کے شکار بنتے جارہے ہیں جو پورے ملک کے منظر نامے سے ظاہر ہے ۔ بابری مسجد کا قضیئہ نا مرضیہ اور اس کے فیصلے پر جج صاحب کا یہ بیان کہ میں نے فیصلہ کیا ہے انصاف نہیں ، ثبوت کے لئے کچھ کم نہیں ہے ۔ اور یہ کسی بھی مملکت و سلطنت کے لئے اچھا تو کیا ظلمت و تاریکی کا پیش خیمہ اور بد امنی کا ذریعہ ہو سکتا ہے چونکہ ظلم و ناانصافی کے ساتھ انسانی دل و دماغ کو کبھی مطمئن نہیں کیا جاسکتا ۔ اور آج بھی ملک کا ہر انصاف پسند شہری اس سے بہت دکھی ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے نظم و انتظام کو دستور کے موافق عملی شکل دینے کے لئے جو حکومت وجود میں آتی ہے وہ الیکشن اور انتخاب عام کے ذریعہ سے آتی ہے اور عوام کی کثرت رائے سے تشکیل پاتی ہے ، مجموعی طور پر ملک میں تین انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں پارلیمانی انتخاب ، اسمبلی انتخاب ، سماجی انتخاب ۔ میری نظر میں سماجی انتخاب پہلے دونوں انتخابات کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لئے کہ سماجی راج اور اس کے حکمراں طبقہ کے سوچ و فکر ، کردار و عمل کا اثر براہ راست سماج پر پرتا ہے اور وہ اثر لازم نہیں ہوتا بلکہ متعدی ہوتا ہے اس لئے جب تک سماجی راج کے لئے اچھے نمائندے کا انتخاب عمل میں نہی آئے گا اس وقت تک سماج کا منظر نامہ پر امن ، خوبصورت اور پر کشش نہیں ہو سکے گا بلکہ ناانصافی کا تعفن پھیلے گا ، ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہوگا اور سماج مدتوں کے لئے بے راہ روی کا شکار بن کر رہ جائے گا ۔ جس کا اثر، لازمی طور پر اسمبلی اور پارلیمانی انتخاب پر بھی ہوسکتا ہے اور اس وقت اس کے نتائج و ثمرات اچھے نہیں ہونگے ۔ ملک کی حکمراں جماعتیں تو الیکشن جیتنے کی مشین بن چکی ہیں اس لئے وہ اسی نمائندے کو ٹکٹ دیتی یے جو منھ مانگا دام بھی دے اور الیکشن جیت کر بھی آجائے ؛ چاہے اس کا کردار ، اس کی صلاحیت اس کی مجاز ہو یا نہ ہو ۔
اب ایسی صورت میں نمائندوں سے زیادہ ووٹروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے حق کااستعمال ملک و سماج کی ہمہ جہت بہتر تعمیر و تشکیل کے تناظر میں پوری ایمانداری اور ذمہ داری سے کریں ، تاکہ ملک و سماج کی سچی خدمت کے لئے اچھا نمائندہ منتخب ہو سکے اور غلط نمائندوں سے ملک و سماج کو بچایا جاسکے ۔ اس وقت پورے بہار میں سماجی الیکشن کی ہمہ ہمی ہے ، ہر کوئی جیت کا دعویدار ہے تو کہیں جیتنے سے زیادہ ہرانے کی فکر دامن گیر ہے اور اس کے لئے امیدواروں نے اپنی بساط بچھا رکھی ہے اور ووٹر اپنے ووٹ کی پوٹلی لے کر خریدار کی تلاش میں اپنی بے حسی اور ضمیر فروشی کے لئے سرگرداں ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ جب ووٹر ہی بے حس ہو جائے گا تو امیدوار کیا کرے گا ؟
ایک سرسری جائزہ رپورٹ کے مطابق تقریبا ہر سماج اور ہر پنچایت میں یہ بتا دینا تو آسان ہے کہ کون اور کتنے لوگ ہونگے جو اپنا ووٹ فروخت نہیں کرتے ہیں لیکن یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کون اور کتنے لوگ ہیں جو اپنا ووٹ اس موقع پر بیچ دیتے ہیں یا بیچنے کے لئے قیمتی گاہکوں کی تلاش میں رات کو بستر استراحت سے الگ ہو کر سر گوشیاں کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ تو اپنا اور اپنے لوگوں کے ووٹ کو کئی کئی امیدواروں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں اور ہر امیدوار، اپنے ووٹرس کی امید اور یقین دہانی کا خریدار بن جاتا ہے ۔ اور بعد میں جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو اس وقت گالیوں کا تحفہ اس کے مردہ اور بے ضمیر سماعتوں کو ملتا ہے ، پر بے حسی ایسی ہوتی ہے کہ اس کا اثر نہیں ہوتا جب یہ رویہ ووٹروں کا ہوگا تو پھر کامیاب امیدوار کیوں کر سماج کی اچھی اور سچی خد مت کرے گا ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ووٹرس پورے ہوش و حواس ، ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے اجتماعی ووٹ کی قوت سے موجودہ امیدواروں میں اچھے ، سچے اور باصلاحیت امیدوار کا انتخاب کرتے ۔ نیک نیتی اور اپنی اجتماعیت اور خیر سگالی کے جذبات سے سماج کی اچھی تعمیر و تشکیل اور خدمت کے لئے ان کو امادہ کرتے لیکن اس وقت سب کچھ بر عکس ہورہا ہے جس میں سب سے پہلا قصور ووٹروں کا ہے ، پھر پورے پانچ سال تک جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا اس کی منظر کشی کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے سب سے پہلی ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے ووٹ کا استعمال قانون و دیانت کے ساتھ کریں ، اس کے بعد ہی ہم منتخب نمائندہ کو کچھ کہنے ، اس کو ہدف بنانے یا آئندہ تبدیل کر دینے کا حق رکھ سکتے ہیں ورنہ وہ جیسا اور جوکچھ ہوگا وہ سب ہمارے ہی انتخاب کا نتیجہ ہوگا ۔
ہمارے لئے اچھا موقع ہے سن 2021ء کے سماجی الیکشن میں سر جور کر الیکشن سے پہلے ہی رائے عامہ ہموار کر لیں تاکہ باصلاحیت اور باکردار شخص کا انتخاب عمل میں آئے تاکہ وہ منتخب نمائندہ وقت پر کام بھی کرے اور ممنون و مشکور بھی رہے لیکن اس کے لئے ووٹ بینک کی سیاست اور سودابازی سے گریز کرنا ضروری اور لازم ہوگا اور اپنی غفلتوں کو عقل و شعور کے حوالے کرنا ہوگا اور آزمائے ہوے کو آزمانہ نادانی نہیں تو دانائی بھی نہ ہوگی ۔
یہی وجہ ہے صوبہ بہار میں موجود ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے اپنے ایک اخباری بیان کے ذریعہ ہم سب کی اچھی راہنمائی کی ہے ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے اور سماج کو سمجھانا چاہیے ۔ سب کا حاصل یہ ہے کہ سماج ملک کے لئے آئینہ ہوتا ہے اس لئے سیاسی طور پر بھی اچھا سماج بنائیے تاکہ آپ کا ملک اچھا رہے اور آپ خود اچھے رہ سکیں ۔
Comments are closed.