Baseerat Online News Portal

ہم بھی تو مجرم ہیں۔

 

مرتب: محمد حنیف ٹنکاروی
رابطہ: 9737984123

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعرض الأعمال یوم الإثنین والخمیس علی اللہ وتعرض علی الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام وعلی الآباء والأمہات یوم الجمعة فیفرحون بحسناتہم وتزداد وجوہہم بیاضًا وإشرافًا، فاتقو اللہ ولا توٴذوا أمواتکم (شرح الصدر للسیوطي)( الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر [رقم الحدیث:۳۳۱۶] (۱/۱۹۹)

ہر پیر اور جمعرات کو امت کے اعمال، اللہ تبارک وتعالی کے دربار میں پیش کیے جاتے ہیں اور جمعہ کو انبیاء علیہم الصلاة والسلام اور آباء وامہات پر پیش کیے جاتے ہیں، حکیم ترمذی نے نوادر میں اس کو روایت کیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ اچھے اعمال سے ان کو خوشی ہوتی ہے اور ان کے چہرے مزید روشن ہوجاتے ہیں، پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ

امت کے ہر فرد کو یہ تصور کرنا چاہیے کہ ہمارے اعمال حضور خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔
اعمال کی اس گٹھڑی میں کیا کچھ نہیں ہےجھوٹ، غیبت، حسد، بغض، عداوت بہتان تراشی، دل آزاری، نہ ہماری زبانوں سے کوئی محفوظ، نہ ہمارے ہاتھوں سے کوئی مامون، حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد دونوں کی حق تلفی اور دونوں شکوہ سنج ہیں کہ ان کرتوتوں کا احاطہ کیوں کر ممکن ہو اور اس کے بیان کی تاب قلم کہاں سے لائے اقبال نے اس صورتحال کی کیا تصویر کشی کی ہے "یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود” ایسے اعمال و کردار کو دیکھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا کچھ نہ گزرتی ہوگی!! اور شفیع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیسی چوٹ پڑتی ہوگی ۔
کسی بدبخت کی جانب سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے پر ہماری غیرت جوش میں آ جاتی ہے اور بلاشبہ اسے جوش میں آنا ہی چاہیے حضرت امام مالک رح سے خلیفہ ہارون رشید نے اہانت رسول کا ارتکاب کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا کہ اس ملت کی زندگی کیا ہے جس کے پیغمبر کو گالیاں دی جائیں۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول) اہانت رسول کو برداشت کرنا جرم عظیم اور ایمان کےعین منافی! لیکن خدارا ذرا اس حقیقت پر بھی تو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رسول کا دل دکھانے کے مجرم ہم بھی تو ہیں!! بس اس فرق کے ساتھ کہ گستاخان رسول زبان و قلم سے اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ہم اپنی غفلتوں اور اس سے آگے بڑھ کر بداعمالیوں سے رسول کے لیے قلبی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے اوپر غصہ کیوں نہیں آتا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اذیت پہنچانے سے بچ جانے کی کوئی تدبیر بھی ہمارے ذہن میں آتی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ آپ کو خراج اطاعت اور خراج اتباع پیش کرنا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ لیکن سوال اس کا ہے کہ اپنے پرانے پاپی من کو کس طرح اس طرف راغب کیا جائے اور غفلتوں کے عادی اندرون کو کس طرح خیر کی طرف مائل کیا جائے۔ خوف خدا، آخرت میں باز پرس، جنت کی نعمتیں، دوزخ کی اذیتیں، دنیا میں بھی اچھے اعمال پر رب کریم کا فضل و عنایت اور برے اعمال پر یہاں بھی پکڑو گرفت… اس طرح کے عقائد اور احساسات حضرتِ انسان کے اعمال پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ جن خوش نصیبوں کو اس کا تجربہ ہے وہی اس کی لذت محسوس کرتے ہیں ان احساسات کی بدولت کس طرح انہوں نے بدیوں کو شکست دی اور کس طرح ان پر نیکیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
ہمیں اعمال پر اثر انداز ہونے والے عوامل و محرکات میں اس احساس کو بھی شامل کر لینا چاہیے کہ ہمارے اعمال رسول صلی اللہ علیہ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جس امت کے لئے آپ نے پتھر بھی کھائے اور پیٹ پر پتھر بھی باندھے اب اس امت کے فرد ہونے کے ناطے فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہمارے اعمال رسول کے لئے راحت کا باعث بنیں یا خدانخواستہ اذیت و تکلیف کا۔
بھلا کون بدبخت ہوگا جو اپنے رسول کو اذیت پہنچانے کا تصور بھی کرسکے گا۔
"رسول کا دل دکھانے کے مجرم ہم بھی تو ہیں” کا احساس اپنے اندر جگانا ہے اس صورتحال کو بدل دینے کا فیصلہ کرنا ہے اور پھر اس کے ثمرات و برکات دیکھنا ہے کہ یہ احساس کس طرح ہمارے لیے "ریموٹ کنٹرول” کا کام کرے گا اور ہمیں نیکیوں سے رغبت اور برائیوں سے نفرت دلانے کا موجب بنے گا۔ جس لمحہ یہ احساس ہم میں جاگ اٹھے گا تو اسی وقت ہمارے دل کی کایا پلٹ جانے اور من کی دنیا بدل جانے میں ان شاءاللہ دیر نہ لگے گی۔

Comments are closed.