قائد انقلاب مرشد اعظم محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

الطاف جمیل ندوی
تحریک اسلامی کے بانی اول انقلاب جہاں کے فاتح اول سعید اعظم در یتیم یکتائے زمانہ کی بارگاہ سے چند اسباق جو دلوں کو بدلنے کی قوت رکھتے ہیں
جزیرہ عرب دنیا کا ایک ایسا جزیرہ کہ جس کا نام اب لب پے آتے ہی عجب کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اس نام سے اصحاب ایمان کی قلبی انسیت ہے لوگ اس نام سے آج کی چکا چوند چمک کے سبب واقف نہیں بلکہ اس کا ایک خاص سبب ہے اور وہ سبب ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی جن کی آمد اہل جہاں کے لئے باعث افتخار ہے کہ وہ آئے اور شب ظلمت کے اندھیرے ختم ہونے لگیے اور صبح بہار کی آمد قلب و نظر کو تسکین بخشنے لگئے ان کی نوید آمد سے
آمنہ کے لال سے شمس وقمر شرما گئے
روشنی پھیلی فضا جھومی محمد آگئے
آج مدت ہوئی اس پاکیزہ و صالح گھڑی کو جب دنیا میں رحمت و شفقت کی آمد ہوئی جب محبت اخوت سادگی شرافت تہذیب و ثقافت ادب شائستگی کی بہار آئی جب پاکیزہ اخلاق و کردار مجسم صورت میں دیکھائی دئے جب انسانیت کو معراج کی راہ دکھانے والے اک پاکیزہ شخصیت جس کی آمد کی نوید سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام نے دی تھی جس کے منتظر آسمان و زمین کی ایک کثیر خلق تھی کہ اس کے اسم مبارکہ سے سعید روحیں آشنا تھیں وہ آئے اس حال میں کہ ان انگلی پکڑنے والا والد دنیا سے انتقال کرچکا تھا آئے تو حالت یتیمی میں بڑی ہی خوبصورت
شکل و صورت کے مالک اپنی امی کی گود میں آئے تو حالت قابل رشک تھی سب اس بیوہ خاتون کی جھولی بھری تھی جو اپنے شریک حیات کے غم سے نڈھال تھی اسے مولا نے امید دی اور اک لخت جگر عطا کیا
یتیمی کچھ یوں تھی جیسے کہ رب العزت فرماتے ہیں اس یتیمی کا تزکرہ
اَلَمۡ يَجِدۡكَ يَتِيۡمًا فَاٰوٰى
کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا؟
یعنی تمہیں چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہوجانے کا کیا سوال، ہم تو اس وقت سے تم پر مہربان ہیں جب تم یتیم پیدا ہوئے تھے حضور ابھی بطن مادر ہی میں چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اس لیے آپ دنیا میں یتیم ہی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دن بھی آپ کو بےسہارا نہ چھوڑا۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں۔ ان کی شفقت سے محروم ہوئے تو 8 سال کی عمر تک آپ کے جد امجد نے آپ کو اس طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ ان کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں کرسکتا، حتی کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپ کی دشمن ہوگئی تھی اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں سینہ سپر رہے
امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو
یوں اس معصوم کی تربیت پرورش اس حال میں ہوئی کہ کبھی ابا کی جدائی تو کبھی امی کی جدائی وہ لمحے کس قدر اذیت سے گزرے ہوں جب اس معصوم بچے کو اس کی والد کی جدائی کی خبر ہوئی ہوگئی اور پھر اپنی امی کی گود سے محروم ہوکر چلنا پھرنا ہنسنا کھیلنا کس قدر ناممکن ہوتا ہے یہ یتیم ہی جانتے ہیں پر اس پر درد دور ان کرب کے لمحات میں اللہ تعالی ایک سے بڑھ کر ایک معاون فراہم کرتا رہا اس معصوم کو
اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو تجارت کی غرض سے سفر شام ہوا اک پاکیزہ صفات سے مزین خاتون نے اپنی تجارتی سرگرمیوں میں وسعت لانے کے لئے انہیں شامل کیا اپنی تجارتی سرگرمیوں میں اور ان کے اعلی اخلاقی اقدار و امانت و دیانت سے متاثر ہوکر نکاح کی خواہش کا اظہار کردیا اس نکاح کی برکات کیا ہیں یہ الگ موضوع ہے
دنیا کی لذت و چاشنی سے دل نہ لگا تو فکر و نظر کو تلاش حق کی ہوئی اور اب یہ نوجوان مختلف حوادث کائنات کی مختلف اقسام کو سوچنے لگا انسانیت جو اب انسانیت سے زیادہ حیوانیت کی دہلیز پر کھڑی تھی کے بارے میں متفکر ہوا اور گوشئہ تنہائی اور سکوت لب کے ساتھ محو پرواز رہے کہ اچانک سے اک غار کی تنہائی میں فرشتہ ہدایت نامہ لے کر حاضر ہوا اور فرمایا اقرأ
یوں دنیائے جہالت و رزالت میں علم و تزکیہ کی اک تحریک شروع ہوئی جس تحریک کا اولین مبلغ یہی عظیم شخصیت بنی جس کا اسم گرامی محمد الرسول اللہ ہے
نبوت کا زمانہ
امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو
عمر عزیز کی چالیس بہاریں دیکھ چکے تھے زمانے کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف تھے زمانے کے دے زخم اور اس کی لذت آفرینی سے واقف تھے اس کی جہالت اس کی نفسانیت اس کی جنگ و جدل حرام کاری و بے حیائی مطلب کہ جو بھی ظلمات کی اقسام تھیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح سے ان سے واقف تھے وہ جانتے تھے لات منات و عزی کوئی تصوراتی خاکہ نہیں بلکہ یہ عقائد و نظریات کے محافظ بنے ہوئے ہیں یہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں بلکہ یہ جاہلیت کے فرستادے اور فرماں رساں بنے ہوئے ہیں ایسے جہالت زدہ ماحول میں صدائے لا الہ الا اللہ کا لگانا ایسا تھا کہ اپنی موت کو دعوت از خود دی جاتی کہ آجا
پر جرآت و حمیت سے سرشار ایمانی لذت سے مزین قلب لئے پوری قوت سے شب ظلمت کے ان پاسبانون کی جمعیت میں مستانہ وار صدائے لا الہ الا اللہ بلند کی اور پوری قوت سے کی جس کا سننا تھا کہ وہ کفار جن کے اذہان میں صرف غلاظت بچی ہوئی تھی جن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی نے یک زبان و یک آواز سے اس صدائے حق کو نکار دیا
قیادت و سیادت کا لبادہ اوڑھے کچھ بدقماش لوگوں نے اب یہاں سے اس عظیم صدا کو دبانے کی کوششیں تیز سے تیز تر کرنے کی سعی شروع کی اک طوفان تھا کہ ظلمت کے نگہبان اسے مزید ہوا دے رہے تھے وہ عرب تھے وہ جانتے تھے کہ لا الہ الا اللہ صرف ایک لفاظی کی گردان نہیں بلکہ یہ ہمارے دیرینہ اقتدار ہماری جاہ و حشمت کے لئے سم قاتل ہے وہ اپنی انانیت چودھراہٹ کو کیوں کر جلدی سے بھول جاتے انہوں نے پوری قوت سے مخالفت کی
صدائے لا الہ الا اللہ کے بعد جب انہوں نے سنا محمد الرسول اللہ تو انہوں نے اب اپنی چودراہٹ کے سہارے طعن کرنا شروع کیے کہ اک یتیم و مفلس اک بے سہارا کیونکر ہمارا امیر و قائد ہوسکتا ہے وہ جانتے تھے ان کی اقتداء کی تو ہماری امامت و لیڈری کا خاتمہ لازم ہے وہ سمجھتے تھے کہ یہ کوئی عام تحریک نہیں بلکہ یہ تو ہمارے پھیلائے افسانوی علوم و نظریات کادفن بنانے والی اک پاکیزہ صفات سے مزین تحریک ہے گر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ پورے جزیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے کر بے نام و نشان کر دے گی ہماری فرسودہ رویات و کھوکھلی ثقافت کو
زمانہ نبوت کے ابتدائی حالات اس قدر سخت اور اذیت ناک کہ گر رب کریم قرن اول کے اصحاب رسول کی دلجوئی نہ کرتا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ انجام کیا ہوا ہوتا یہ سفر صعوبت اس قدر ہیبت ناک کہ تاریخ کا طالب علم پڑھ کر سن کر لرز جاتا ہے اور اک آہ برکت تڑپتا ہوا تاریخ اسلامی کے شامل اولین نفوس قدسیہ کی پامردی و غیرت ایمانی کو دنیائے استقامت کے استعارہ ماننے کے سوا کوئی راہ اسے نظر نہیں آتی جب اس جور و جبر کی طرف سے انفرادی و اجتماعی سطح پر ڈھائے جارہے تخت ستم میں بنے مشق ستم سعید روحیں صبر استقامت کے ساتھ کھڑی رہیں تو اب باطل کے ایوانوں میں شورش طوفان کھڑا ہوگیا جس کے زیر عتاب یہ قافلہ سخت جان اپنے گھر بار اپنے وطن عزیز اپنے چاہنے والوں سے کنارہ کرتے ہوئے عازم ہجرت ہوگئے
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مکہ مکرمہ کے صحراؤں کی خاک سے اٹھی یہ تحریک یثرب کے ریگزاروں میں جا بسی اور الہی ہدایات کی روشنی میں قیل و قال سے ارباب جہاں کو کن فیکون کا تصور دیتی رہی شب ظلمت کی سیاہ کاریوں کے وہ دیو جو اپنی دنیائے سلطنت کے لئے اس تحریک کو سم قاتل سمجھتے تھے نے اب یثرب میں اسے پروان چڑھتے ہوئے اسے مٹانے کی سعی لاحاصل کرنے کے لئے محو سفر ہوگئے ہم دیکھ سکیں تو دیکھ لیں کہ جو تحریک کے اولین نقوش ہیں وہ انتہائی عظیم ہیں کہ انسانوں کو انسانی خداؤں کے نرغے سے نکالنے کے لئے محو جدوجہد ہیں وہ اپنی سادگی اخلاقی قدروں کی بحالی معاشرے میں پیدا ہوئی نابرابری کی مخالفت میں کمر بستہ حیاء سوز حالات کے بدلاؤ بدی کی آماجگاہ بنی محافل کا طلسم توڑنے کے لئے پوری قوت سے مٹانے کی سعی کر رہی ہے اور قائد تحریک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لا مثال کردار و گفتار کے ساتھ اس تحریک کو مسلسل مقبولیت کی معراج کرائے جارہے ہیں اب کفر نے اک وار سے اس عظیم کارواں کو مٹانے کا ارادہ باندھ لیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کو عزت دینے والے جو چرند و پرند کے حقوق کے پاسباں بنے ہوئے تھے وہ کبھی بدر میں تو کبھی احد میں کبھی حنین میں تو کبھی خندق جیسے محاذ پر کھڑے ہیں انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے جب قائد انقلاب مرشد اعظم مکہ مکرمہ کی وادی میں فاتح کی صورت میں واپس آتے ہیں تو سر اقدس جھکا ہوا ہے معافیوں کے پروانے ان کو بھی دے جاتے ہیں جنہوں نے جینے کی راہیں تک مسدود کر چکے ہیں جو ہر قسم کا جور جبر تشدد آزما چکے تھے پر آج قائد انقلاب محمد الرسول اللہ لا تثریب علیکم کا مژدہ محبت سنا کر ظلم و جبر کے سودا گروں کے دل دھل رہا ہے وہ شرمندہ ہو ہو کر اپنے کئے پر پشیماں ہو ہو کر معافیاں مانگ رہے ہیں اور دل سے کلمہ طیبہ کا اقرار کر رہے ہیں
( اب کے حق نے کیا ایسا اک رسول
جس نے سروں کے ساتھ دلوں کو جھکا دیا)
اور در محبت و عظمت سے ان کی ہر خطا سے ان کے ہر جبر سے یک طرفہ معافی کے پروانہ عطا کئے جارہے ہیں یہ وہ تحریک تھی جسے مٹانے کی سعی کرنے کے لئے اہل ظلمت نے کیا کیا تدابیر نہ کی پر رب کریم نے اسے ترقی دینی تھی یہ اپنی منزل تک پہنچ ہی گئی
فاتح اعظم کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے ان کی اخلاقی فتح یہی کہ ظلم و جبر کے فرستادے بھی جب سامنے آئے نادم ہوکر تو عفو و درگزر کے اس عظیم کارواں کے قائد نے معاف کردیا کسی قسم کا بدلہ تو دور کوئی سرزنش تک نہ کی نہ ہی انہیں ان کے لئے پر عار دلایا کبھی کہ تمہارے ظلم و ستم کے برسائے تیروں کے زخم اب بھی یاد بن کر موجود ہیں ہمارے ساتھ کیا زمانے میں ایسا کوئی فاتح ہے جس کی مثال دی جاسکے نہ ہے نہ ہوگا تا قیامت
یہاں تک پہنچنے کے بعد مناسب ہے کہ سیرت کا وہ باب بھی سمجھنے کی سعی کی جائے جو لازم ہے سمجھنا اور جس کے ماننے کے سوا کوئی راہ ہے ہی نہیں
کچھ باتیں
آمد کا مقصد اول
سنت الہیہ کے مطابق انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا اولین مقصد بندگان اللہ کو ہر شرکیہ اور کفریہ نظریہ سے نکال کر توحید باری سے جوڑنا ہوتا ہے اثبات کے لئے قرآنی آیات موجود ہیں
دوم رسالت کی تصدیق
سنت الہیہ یہ بھی کہ کسی عظیم شخصیت کا انتخاب کرکے اس کی طرف وحی کی جاتی ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے مبعوث کیا ہوا نبی ہوتا ہے جس کا کام الہی احکامات کے ساتھ ساتھ رسالت کا تعارف بھی ہوتا ہے تاکہ انسان ایک قائد کے ساتھ اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور بندگی کا حق ادا کرسکے اجتماعیت کے ساتھ اور اس اس اجتماعیت کا جو امام ہو وہ اس زمانے میں اللہ تعالٰی کی طرف سے مبعوث کیا ہوا نبی ہی ہو جو پوری قوم میں سب سے بہتر ہو
سوم
معاشرے کی اصلاح
معاشرے میں بگاڑ اخلاقی دیوالیہ تشدد ظلم و جبر تہذیبی جارحیت انسانوں میں بھید بھاؤ اونچ نیچ حد سے زیادہ گناہوں کی آمد ایسے ہی مختلف اسباب ہوتے ہیں جن کے لئے سنت الہیہ یہی ہے کہ ان میں رب العزت کے احکام کی پیروی کی جائے اور نبوی ہدایات کی اتباع کی جائے کیوں کہ جب بھی کسی قوم میں بگاڑ آیا وہ تو ابتداء میں معاشرے اور سماج میں برائی کے ورود سے ہی شروع ہوا اس کے لئے کافی یہی ہے کہ زمانہ رسالت سے قبل کے عرب کے حالات کو پڑھا جائے وہاں کی تہذیبی اور ثقافتی روایات کی غلاظت کو پڑھا جائے پورے عالم کے حالات ایسے ہی تھے مرد و خواتین کے انسانی حقوق میں تفریق اونچ نیچ مار دھاڑ ظلم و جبر بدکاری و فحاشی کا عام ہونا حیاء سوز حالات ان کی اصلاح بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا ایک سبب ہوتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں پر توجہ دی اور صالح معاشرے کی داغ بیل ڈال دی اور اس پر عمل کی اور کرنے کی ترغیب دی کچھ باتیں عرض ہیں
بڑائی اور اپنے قد کی اونچائی اپنے مرتبے کا نشہ انسان سے کیا کیا نہیں کراتا حسن و خوبصورتی یا جسمانی قوت کا مظاہرہ انسان کی عقل میں یہ فتور پیدا کر دیتا ہے کہ تو سب سے فائق و لائق ہے پر اسلام میں ایسی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں یہاں تقوی شعاری ہی سب سے مقدم و فائق ہے اک ایسا واقعہ جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے
ایک بار حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے منہ سے نکل جاتا ہے
آئے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا؟
بلال یہ سن کر غصے اور افسوس سے بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوے اٹھے ۔۔۔ خدا کی قسم! میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اٹھاؤں گا!!
یہ سن کر اللہ کے رسول کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا: ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟؟؟ تمھارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی!!
اتنا سننا تھا کہ ابوذر یہ کہتے ہوے رونے لگے: یا رسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے۔ اور پھر روتے ہوے مسجد سے نکلے ۔۔
باہر آکر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا ۔۔
اور بلال سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: "بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پانْوں سے نہ روند دوگے، میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا۔ یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار!!
یہ دیکھ کر بلال روتے ہوے آئے اور ابوذر سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا۔ اور بے ساختہ گویا ہوے: خدائے پاک کی قسم! میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں، جس نے ایک بار بھی خدا کو سجدہ کیا ہو۔ پھر دونوں کھڑے ہو کر گلے ملے اور بہت روئے!! اور آج ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی دسیوں بار ہتک کرتا ہے؛ مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ "بھائی! معاف کریں۔ بہن! معذرت قبول کریں”۔ یہ سچ ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے جذبات کو چھلنی کر دیتے ہیں؛ مگر ہم معذرت کے الفاظ تک زبان سے ادا نہیں کرتے اور "معاف کر دیجیے” جیسا ایک عدد لفظ کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔۔
معافی مانگنا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے۔ جب کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خود کی بے عزتی اور اہانت ہے۔۔۔ ہم سب مسافر ہیں، اور سامانِ سفر نہایت تھوڑا ہے۔ ہم سب دنیا و آخرت میں اللہ سے معافی اور درگزر کا سوال کرتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں تاریخ اسلامی کے پنوں پر بکھری ہوئی مل سکتی ہیں تو کیا ہم اس زمانے میں ایسی مثال کی کوئی مثال دکھا سکتے ہیں اہل جہاں کو یہ تاریخ اسلامی کے وہ دو درویش ہیں جن کے تقوی شعاری پرہیزگاری دیانت داری پر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ان کی آپسی تعلق میں کوئی کجی پیدا نہ ہو ایک
دوسرے پر یوں وارے جاتے ہیں تو آئے اہل ایمان ہم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے یہ تو ایک مثال ہے ہمارا حال بھی کسی بگڑی ہوئی سابقہ قوم سے کوئی کم نہیں ہے ہمارے معاشرے میں جو بگاڑ ہے اسے مسجد میں مانگی دعائیں ہی صرف ٹھیک نہیں کرسکتی ہیں بلکہ اس کے لئے اسلام کو معاشرے میں بھی سماج سوسائیٹی میں بھی تسلیم کرنا ہوگا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مصلے کی حدود تک نبی مبعوث نہیں کئے گئے بلکہ گود سے لحد تک جتنے مراحل آتے ہیں یا آئیں گئے ہر جگہ کے قائد محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو کیا سبب کہ ہمیں اپنے صاحب ایمان ہونے کے لئے اپنے نام کے ساتھ نمازی حاجی روزہ دار وغیرہ جوڑنے پڑھتے ہیں کیا اخلاقی قدروں کی پامالی کرکے ہم خود کو نبوی منہج کے متبعین گرداں سکتے ہیں زنا بدکاری حیاء سوز حالات معاشرے میں بگاڑ انسانیت سے دشمنی آپسی رسہ کشی ہمسائیگی کے معاملات سے صرف نظر احکام الہی کی اعلانیہ نافرمانی عقائد باطلہ نظریاتی پستی فکری دیوالیہ بیٹی کے تولد ہونے سے نفرت چوری چکاری یہ سب معاشرے کے مسائل ہیں اس کے علاوہ ہماری عبادت گاہوں کا خالی ہونا بھی ہمیں دعوت فکر دیتی ہے
تو آئے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کیا اب بھی وقت نہیں کہ ہم بدلاؤ لائیں اپنے حالات و کوائف میں
قارئین یاد رکھیں ایک اور تحریر اس حوالے سے آئے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انسانی معاشرہ
الطاف جمیل ندوی
Comments are closed.