ہم انجینئر فیصل صاحب کی امارت کیوں تسلیم نہیں کرتے؟؟؟

 

محمد قیام الدین قاسمی

 

حامیین کے نو دلائل و اعتراضات کے جوابات، اجلاس کی روح فرسا روداد

 

انجینئر فیصل صاحب کی امارت کی حمایت کرنے والے مندرجہ دلائل و اعتراضات پیش کرتے ہیں، ہم ایک ایک کرکے ان کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں

 

1 انجینئر فیصل صاحب کی امارت پر حدیث سے استدلال اور اس کا ابطال

کچھ لوگ امارت کے مسئلے پر حدیث سے استدلال فرمارہے ہیں کہ جو ہوگیا سو ہوگیا اب جب فیصل صاحب امیر بن گئے تو اب مخالفت کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ حدیث شریف میں آیا ہے:

وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إسْمَعُوْا وأطِيْعُوْا وإن اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كأنَّ رَأْسَهُ زَبِيْبَةٌ” رواه البخاري حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللّہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "کہ سنو اور بات مانو (یعنی امیر کی سمع و طاعت بجا لاؤ) چاہے تم پر کوئی حبشی غلام ہی امیر کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر منقّہ کی طرح ہو۔

لہذا اب ہمیں آنکھ بند کرکے فیصل صاحب کی اطاعت کرنی چاہئے

لیکن یہ استدلال سراسر غلط ہے، کیوں کہ اس حدیث کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ جب و أمرھم شوریٰ بینھم پر عمل کرتے ہوئے امیر بنادیا جائے تو امیر کی ذاتی خوبیوں یا خامیوں پر بحثیں نہ کرو بلکہ سمع و طاعت سے کام لو، کیوں کہ جب وہ امیر شوری بینھم سے طے ہوا ہے تو اس میں ضرور اللہ کی مدد شامل حال ہوگی، لیکن یہاں مسئلہ امیر کی ذاتی قابلیت کا ہے ہی نہیں یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ شوری کے ساتھ ہی کرپشن کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جو شوری امیر طے کرتی ہے جسے اربابِ حل و عقد کہا جاتا ہے اس شوری میں ہی غیر دستوری طور پر کچھ لوگوں کو داخل کردیا گیا ہے، تو اگر شوری کرپٹ ہو تو کیا تب بھی بنائے گئے امیر کی سمع و طاعت ضروری ہوگی؟ حدیث اس سے بالکلیہ خاموش ہے، لہذا اس حدیث سے استدلال درست نہیں، فتدبر

 

2 انجینئر فیصل صاحب عالم ہیں کیوں کہ ان کے پاس دین کی اچھی خاصی معلومات ہیں

دیکھئے عالم کس کو کہتے ہیں یہ پورے طور پر عرف پر موقوف ہے، ہندوستان کے عرف میں عالم اسی کو بولا جاتا ہے جس نے کسی روایتی مدرسے سے فراغت حاصل کی ہو یا پھر اس کی اتنی علمی خدمات ہوں جس کی بنا پر انہیں عالم کہا جاسکے، انجینئر فیصل صاحب نے نہ تو کسی مدرسے سے فراغت حاصل کی ہے، نہ ہی ان کی کوئی علمی خدمات ہیں اور نہ ہی کوئی علمی مشغلہ ہے آپ کسی بھی طرح انہیں عالم ثابت نہیں کرسکتے، ورنہ پھر آپ کو جماعت میں سال لگائے ہوئے شخص کو بھی عالم کہنا پڑے گا جو آپ کبھی نہیں کہیں گے مجھے معلوم ہے

 

3 عرب میں تو کوئی مدرسہ نہیں وہاں تو کلیۃ الشریعہ کے فارغ کو بھی عالم کہتے ہیں، اس اعتبار سے انجینئر فیصل صاحب عالم ہیں کیوں کہ انہوں نے جامعہ ازہر سے تعلیم حاصل کی ہے

 

دیکھئے اول تو یہ کہ ہر جگہ کا عرف بھی الگ الگ ہے اور پھر اس جگہ کے عرف کا اعتبار وہیں کے لوگوں کے لیے محدود رہے گا، آپ مصر کا عرف لے کر ہندوستان پر فٹ نہیں کرسکتے، ہندوستان کا عرف لے کر عرب پر فٹ نہیں کرسکتے اور نہ ہی عرب کا عرف لےکر آپ ترکی پر فٹ کرسکتے ہیں، یہ کامن سینس کی بات ہے

اور بالفرض وہاں کے عرف کو اگر ہم یہاں پر فٹ کر بھی دیں پھر بھی آپ انجینئر صاحب کو عالم ثابت نہیں کرسکتے، کیوں کہ انجینئر صاحب نے وہاں اسلامی علوم و فقہ سے فراغت حاصل نہیں کی بلکہ تجوید پڑھی ہے یا عربی پڑھی ہے اور تمام مسلم ممالک کا جائزہ لے لیں کہیں بھی تجوید پڑھنے والے یا عربی پڑھنے والے کو عالم کے لقب سے سرفراز نہیں کیا جاتا، لہذا آپ کسی بھی رو سے انجینئر فیصل صاحب کو عالم ثابت نہیں کرسکتے

 

4 امیر شریعت اول اور ثانی بھی کسی مدرسے سے فارغ شدہ عالم نہیں تھے پھر بھی انہیں امیر بنایا گیا تو انجینئر صاحب کیوں نہیں بن سکتے؟

آپ کی معلومات کمزور ہیں آپ جاکے پھر سے تحقیق کریں، ملک کے معروف عالم و قلم کار مولانا ثناء الہدیٰ صاحب اپنے مضمون میں امیر شریعت اول کے تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ انہوں نے شاہ علی نصر قادری سے درسی کتابوں کی تکمیل کی پھر سفر حجاز میں عرب کے متعدد عالموں سے اجازت حدیث حاصل کی نیز لمعات بدریہ کے نام سے ان کے خطوط و تحقیقی مقالات بھی چار جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں مزید یہ کہ ان کی علمی وجاہت اور دینی خدمات کو دیکھ کر انہیں شمس العلماء کا لقب بھی عطا کیا گیا، اسی طرح امیر شریعت ثانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے 1318 ہجری میں فراغت حاصل کی اور ان کے سر پر دستار فضلیت باندھی گئی اور پھر تدریسی زندگی کا آغاز کیا، سید سلیمان ندوی جیسے جلیل القدر عالم ان کے تلامذہ میں سے رہے ہیں اب آپ ہی بنظر انصاف بتائیں کیا انجینئر صاحب کو امیر شریعت اول و ثانی پر قیاس کرنا درست ہے؟ انجینئر صاحب نے کس استاذ سے اپنے درس کی تکمیل کی؟ کس استاذ سے انہیں اجازت حدیث حاصل ہے؟ کون سی علمی خدمات ہیں ان کی؟ یقین مانئے آپ کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے

 

آپ غور فرمائیں کہ ایک طرف انجینئر سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی) ہیں جنہیں اپنی قابلیت دکھانے کو کسی مولانا کے لاحقے کی ضرورت نہیں ان کی تحریریں ہی ان کی فکروں اور قابلیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں

دوسری طرف انجینئر فیصل رحمانی ہیں جن کے پاس بطور علمی لیاقت کچھ ہے نہیں لہذا بھکتوں کو دکھانے کے واسطے حضرت اور مولانا وغیرہ کے القاب لگانے پڑرہے ہیں

 

5 عالم کس کو کہتے ہیں کس کو نہیں کہتے اس پر تو باضابطہ امارت کی جانب سے بحث ہوچکی اور فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا اب اس معاملے پر فضول کی بحث کرنے سے کیا فائدہ؟

یہی تو مسئلہ ہے کہ اس پر فیصلہ تو ہوا ہی نہیں چھ حضرات کی میٹنگ تھی تین کے حساب سے وہ عالم نہیں ہیں تین کے حساب سے عالم کی فہرست میں انہیں شامل کیا جاسکتا ہے یہ تو برابر اور ٹائی والا معاملہ ہوا فیصلہ کہاں ہوا؟ اور جب فیصلہ ہوا ہی نہیں تو کیسے انجینئر صاحب کو امیر بننے کے لیے نامزد کردیا گیا؟

 

6 اب آپ ووٹنگ کے غیر شرعی غیر شرعی ہونے کی رٹ لگارہے ہیں اگر اسی ووٹنگ سے مولانا انیس صاحب جیت جاتے تو یہ شرعی ہوجاتا؟

دیکھئے شرعی غیر شرعی کی بحث کو سائڈ میں رکھئے ہم ایک درجہ نیچے اتر کر جمہوریت کے اصولوں پر اس انتخاب کو پرکھیں تو بھی یہ انتخاب صحیح قرار نہیں پاتا کیوں کہ جمہوریت میں نمائندگی افراد کے تناسب سے متعین کی جاتی ہے مگر یہاں مفتی ثناء اللہ صاحب کے بقول ایک ایک محلے سے پندرہ پندرہ افراد اور صرف سوپول سے پینتالیس افراد کو ارباب حل و عقد میں شامل کیا گیا، صرف سیمانچل کے اربابِ حل و عقد کی تعداد پچیس فیصد بنتی ہے، کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا یہ امارت کی روح کے ساتھ امارت کے دستور کے ساتھ کھلواڑ نہیں؟

دستوری طور پر 170 نئے اربابِ حل و عقد کو چننے کا اختیار نائب امیر کے پاس ہے ہی نہیں اور نائب امیر کے سارے اقدامات بشمول گیارہ رکنی کمیٹی پہلے ہی امارت کے لیٹر پیڈ پر کالعدم قرار دئیے جاچکے ہیں پھر ووٹنگ میں انہیں شامل کرنا سراسر غیر دستوری عمل ہے اور جس امیر کو غیر دستوری عمل سے منتخب کیا جاتا ہے وہ امیر بھی غیر دستوری ہی کہلاتا ہے

 

7 اگر یہ 170 نئے اراکین اتنے ہی غیر دستوری ہیں تو پھر ان کے خلاف احتجاج اور ان کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا؟

تیس اگست کو شوری کی میٹنگ میں پرزور طریقے سے یہ مدعا اٹھایا گیا اور اجلاس میں بھی لیکن جب ذمہ داروں کی نیتوں میں کھوٹ ہو تو پھر کوئی کیا کرسکتا ہے

 

آئیے آپ کو اجلاس کی المناک صورتِ حال سے واقف کراتا ہوں، اجلاس میں موجود مفتی ثناء اللہ قاسمی صاحب اور دیگر قاضیوں نے مطالبہ بھی کیا کہ دستور کو پڑھا جائے امیر کے اوصاف پر بحث ہو لیکن کسی کی نہ سنی گئی کیوں کہ مائک پر ناظم اور نائب امیر شریعت صاحب نے قبضہ جمارکھا تھا اور اپنی اپنی ذاتی مجبوریوں کی بنا پر انجینئر صاحب کی طرف داری کرنا ان کے لیے ضروری ہوچکا تھا، اسی طرح کئی اراکین شوری نے آواز بلند کیا کہ اگر انتخاب کی نوبت آئی تو ان نئے 170 اربابِ حل و عقد کو ووٹ دینے کا قطعا حق نہ دیاجائے جن کو شوری کی جانب سے منع کئے جانے کے باوجود نائب امیر نے دعوت نامہ بھیج دیا تھا لیکن ہر طرح کا وعدہ و یقین دلانے کے باوجود شمشاد رحمانی صاحب نے ان کو ووٹ میں شامل کرلیا

ایک اور عینی شاہد مولانا شمس پرویز مظاہری صاحب لکھتے ہیں "فیصل رحمانی امیر شریعت منتخب تو ہو گئے لیکن میں نے ارباب حل و عقد کے چہروں پر جو مایوسیاں دیکھی ہیں وہ بیان سے باہر ہے، جب میں ووٹ دے کر باہر نکلا تو اندر دس بیس لوگ ہی موجود تھے باقی احباب جا چکے تھے،کسی نے بھی نتیجہ کا انتظار کرنا گوارہ نہیں کیا”

 

8 یہ لوگ اولا تو بوڑھی قیادت کا رونا روتے ہیں لیکن جب جوانوں کو قیادت سونپی جاتی ہے تو چیں بجبیں ہوجاتے ہیں

 

بھائی مسئلہ جوان ہونے کا ہے ہی نہیں دستوری اہلیت کا مسئلہ ہے، آپ دستور کے مطابق سیاست ہند سے واقف، امت میں اثر و رسوخ رکھنے والے اور قوم کی خاطر فیلڈ ورک کا تجربہ رکھنے والے کسی نوجوان عالم کو بھی امیر بنادیں ہم بسر و چشم اس کی اطاعت کریں گے لیکن بڈھا ہو یا جوان، بڑے باپ کی اولاد ہو یا بڑا قابل شخص اگر وہ دستور کی شرطوں پر پورا نہیں اترتا تو ہم اسے امیر نہیں مان سکتے

 

9 جب بڑے علماء اعتراض نہیں کررہے مبارک بادی پیش کررہے ہیں تو تم کیوں زبردستی مخالفت کرکے اتحاد کو پارہ پارہ کررہے ہو

یہ کوئی دلیل تو نہیں ہے کہ بڑے کچھ نہ کہیں تو ہم بھی کچھ نہ کہیں، ایک غلطی کو دوسری غلطی سے جسٹیفائی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اگر بڑے اپنی مصلحت کی قبا پہنے بزدلی کی ردا اوڑھے خاموشی کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں تو ان کی مرضی، ہمیں تو اللہ میاں کے یہاں جواب دینا ہے کہ تمہارے سامنے ظلم ہورہا تھا نا انصافی ہورہی تھی تو تم نے کیوں نہیں آواز اٹھائی؟ کیوں تم نے اپنے حصے کی کوشش نہ کی سو ہم کررہے ہیں

 

اخیر میں فیصل صاحب سے بس اتنی درخواست کروں گا کہ یہ ہمارے روحانی باپ کا لگایا ہوا پودا ہے جو اب تناور درخت بن چکا ہے، یہ ہمارے ہاتھوں میں ہمارے آباء کی امانت ہے جس کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے اور ہم یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے آپ سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ آپ دستوری طور پر اس منصب کے اہل نہیں ہیں، آپ اپنی امارت سے استعفیٰ دے دیں ورنہ امارت کے ٹکڑے ہوں گے اور اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے، امید ہے آپ کی نرم خو طبیعت اس عرض داشت پر غور کرنے پر آپ کو مجبور کرے گی۔

 

میں اس حدیث پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة. قال: كيف إضاعتها يا رسول الله؟ قال: إذا أسند الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة)) رواه البخاري،

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول امانتیں ضائع کیسے ہوں گی حضور نے فرمایا جب (اہل علم و فضل و کمال کی موجودگی میں اور ان کے مقابلہ میں) نا اہل کو امیر بنا لیا جائے،تو پھر قیامت برپا ہوکر رہے گی،( بخاری شریف )

اور میرا ماننا ہے کہ انجینئر صاحب اس کے اہل نہیں ہیں اور متحدہ بہار میں اہلوں کی کمی نہیں ہے۔

Comments are closed.