مولانا ارشد مدنی کے انٹرویو پر "ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

از: محمد اللہ قیصر
تسلیم ہے کہ حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کو سدرشن کے اینکر کو انٹرویو نہیں دینا چاہئے، اس بدزبان کو اپنے سامنے ایک لمحہ بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، دیکھتے ہی دھتکار کر بھگانا چاہئے، گستاخ رسول، بدزبان، بد کردار، شرارت انگیز ، فتنہ پرور، قوم و ملت کے کھلے دشمن سے ایک لمحہ بات کرنا بھی درست نہیں، وہ بھی مولانا ارشد مدنی جیسے عالی مرتبت، رہنماء قوم و ملت، اور ہندی مسلمانوں کی قیادت کے آبرو کیلئے تو کسی زاویہ سے درست نہیں کہ آپ اپنے مقام کا خیال رکھے بغیر تیسرے درجہ کے کسی صحافی کو دو منٹ بھی دیں، ظاہر ہے، جمعیت کا جو مقام ہے ( کوئی مانے نہ مانے سب سے بڑی قیادت تو جمعیت کے ہاتھوں میں ہی ہے) اس کو دیکھتے ہوئے صدر جمعیت کے پروٹو کولز ہوں گے، اس میں یہ بھی مقرر ہوگا، کہ کس درجہ کے صحافی کو صدر جمعیت انٹرویو دے سکتے ہیں، تو یہاں اس پروٹوکول کی پیروی کیوں نہیں کی گئی؟ ہمدردان قوم وملت نے مولانا کے خلاف جس ناراضگی کا اظہار کیا وہ بھی ان کی قومی غیرت و حمیت، اور اپنے قائد کے تئیں بے پایاں عزت و وقار کے جذبہ کی عکاسی کرتا ہے، نوجوانوں کے اشکالات بجا ہیں، اور اس میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت مولانا سے جب سوال کیا گیا، تو کھلے دل نے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی چالباز نے ان کو لاکر کھڑا کردیا، میں اسے جانتا تو ہر گز انٹرویو نہیں دیتا، اس وضاحت میں اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ ہمیں اس شخص کو انٹرویو نہیں دینا چاہئے، اور لہجہ بتایا ہے کہ انہیں افسوس بھی ہے۔
لیکن اب مسئلہ ہے کہ انٹرویو تو ہوگیا، وہ نشر بھی ہو گیا، اب سابقہ سوالات کے فائدے کیا ہیں؟ اس سے حاصل کیا ہوگا، کیا بس اتنا کہ آئندہ کوئی رہنما سدرشن چینل پر جانے سے گریز کریں، تو صد فیصد یقین ہے کہ کوئی بڑا رہنما وہاں جانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔
اس کے علاؤہ کوئی فایدہ ہو تو بتائیں، بلکہ سوال در سوال اور سلسلہ جواب کا ایک نقصان ہے کہ مولانا ارشد مدنی جیسے چوٹی کے قائد پر عوامی اعتماد کمزور ہوگا، اور یہی آپ کے دشمنوں کی خواہش ہے، مولانا ارشد مدنی صاحب کی ذاتی خوبیاں، ان کی نیکی، ان کا بلند کردار، اور قومی و ملی جذبہ ایک طرف، بطور صدر جمعیت بھی ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ( جزوی اعتراضات کو چھوڑ کر) وہ قوم و ملت کیلئے مفید ثابت ہوئے ہیں، اہم ملی مسائل پر ان کا موقف ہمیشہ دوٹوک رہا ہے، ان کے کسی عمل سے مسلم مخالفین کو کوئی موقع نہیں ملا ہے، ہر موقع پر انہوں نے سوجھ بوجھ اور حکمت کے ساتھ قوم کا دفاع کیا، ان کی اہم خوبی یہ نظر آتی ہے کہ وہ دفاعی پوزیشن میں آکر نہیں بولتے، ان کی صاف گوئی دشمنوں کو بھی چبھتی ہے، جرات و بیباکی سے مخالفین کا سامنا کرتے ہیں۔
اس اتفاقیہ انٹرویو میں بھی دیکھئے، جس کا شدت سے انتظار تھا، مولانا نے اینکر کو کھلے طور پر کہا کہ میں آپ کو متشدد بلکہ اس سے بھی بڑا شدت پسند سمجھتا ہوں، پورے انٹرویو میں کہیں دفاعی پوزیشن میں نظر نہیں آئے حکومت وقت کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی گئی، مسلمانوں کے تئیں اس کے رویے کو واضح طور پر ظالمانہ قرار دیا، اور صاف طور پر کہا کہ آپ کے پاس طاقت ہے اس کے بل پر جو مرضی وہ کر رہے ہیں، مساجد توڑی جارہی ہیں، اور یہ بھی یاد دلایا کہ طاقت ہمیشہ نہیں رہتی، لیکن ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں کوئی ایمان دار آئے گا، وہ ہندو بھی ہو سکتا ہے اور مسلمان بھی، جو غلط کو غلط کہنے کی جرات کرے گا، مسلمانوں کے تئیں حکومتی تفتیشی اداروں کے کردار پر بھی انگشت نمائی کرتے ہوئے، تشویش کا اظہار کیا، اور دوٹوک کہا کہ وہ دودھ کی دھلی ہوئی ہیں، ہم ایسا نہیں مانتے، ہم آنکھ بند کرکے اعتماد نہیں کرسکتے، حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا، طالبان، افغانستان، بنگلہ دیش کے سوال پر بھی درست اور واضح موقف پیش کیا، کہیں ایسا نہیں لگا کہ کسی مسئلہ پر مولانا نے ڈھل مل رویہ اپنا یا ہو، یا وہ خود سپردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں،
اب بعض امور ہیں، جیسے مسئلہ کافر، گاندھی کو کافر کہنا، بھاگوت کے متعلق اپنے موقف کا اعادہ، سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار، تو پہلے دو مسئلہ پر مولانا نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنی بات پیش کردی، ادنی سمجھ رکھنے والا بہت کچھ سمجھ سکتا ہے، عالمی اور ملکی حالات کے پیش نظر معتدل تعبیر حکمت کا تقاضا ہوتی ہے، سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کیوں غلط قرار دیا جارہا یے، سمجھ سے بالاتر ہے، کچھ لوگ کہہ رہے کہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں، ان سے سوال ہے کہ کیا یہاں اسلامی احکامات کا سپریم کورٹ سے مقابلہ کیا جا رہا تھا کیا؟ یہاں تو مطلقا سپریم کورٹ پر اعتماد کا مسئلہ تھا، تو ظاہر ہے ایک جمہوری ملک میں ہر شخص یہی کہے گا کہ ہمیں مکمل اعتماد ہے، ہاں یہ بھی درست ہے کہ اس کے فیصلوں پر اعتراض کا حق ہمیں قانون نے دیا ہے،
رہا بھاگوت کا مسئلہ تو مولانا نے اپنے سابقہ موقف کا صراحتا اعادہ کیا ہے۔ اس سے آپ کو اور ہر شخص کو اتفاق یا اختلاف کا مکمل حق ہے، کیجئے اختلاف، اور مدلل طریقہ سے اپنا موقف سامنے رکھئے، مسلمانوں کو ان کے تئیں بیدار کیجئے، ان کی سنجیدگی سے رہنمائی کیجئے، کون روکتا ہے۔
ایسی صورت میں نفس انٹرویو پر بے جا اعتراضات اور ناراضگی کا اظہار انتہائی نامناسب عمل ہے، البتہ مولانا کے موقف سے اختلاف کی صورت میں اعتراض کا مکمل حق ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب قائدین کو نشانہ بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، بڑھتی بد اعتمادی سے دشمنوں کو مزید حوصلہ ملے گا، تو آپ دوسروں کو موقع دینے کے فراق میں ہیں یا قومی غیرت و حمیت کا اظہار کرتے ہوئے، درست موقف کی وضاحت کر رہے ہیں، یہ بھی قابل غور ہے۔
ایک قابل توجہ امر یہ ہے کہ سنجیدگی کا مشورہ دینے والوں کو بلا سوچے سمجھے ” اندھ بھگتی” کی سند جاری کرنا کون سی دانشمندی ہے، یہ کوئی سمجھائے، ان دنوں دیکھا جارہا ہے کہ آپ جو چاہیں بولیں، لیکن اگر کسی نے صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دے دیا، تو یہ جرم بن جاتا ہے لوگ اسے اندھ بھگتی کا طعنہ دینے لگتے ہیں ،کیا اس طرز عمل کو احماقنہ طیش کے علاؤہ کوئی اور نام دیا جا سکتا یے؟ دوسروں کو مشوروں سے نوازنے کے ساتھ اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لائیں، جان لیجئے کسی بھی مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ پیش کردہ رائے کے حسن کو دوبالا کرتا یے۔

Comments are closed.