ہندوستان کی یہ دل کش تصویر بھی دیکھیں

محی الدین غازی
نکاح خواں نے خطبہ نکاح کے بعد کہا ۔۔ اے نیک اور صالح نوجوان سعادت حسین میں نے آپ کا نکاح ستیش کمار جی کی پیاری بچی شامولی سے کیا، آپ کو قبول ہے؟ سعادت حسین نے پر مسرت لہجے میں کہا "قبول ہے ” اس کے بعد دھیمی دھیمی مبارکباد کی صداؤں سے مسجد کے درو دیوار گونج اٹھے ، ستیش جی کا چہرہ خوشی اور طمانیت سے کھل اٹھا۔ وہ اٹھے اور بڑے پر تپاک انداز سے مولانا سے گلے لگ گئے ان کی خوشی دیدنی تھی۔۔
یہ مجلس نکاح دہلی کی مسجد اشاعت الاسلام منعقد ہوئی تھی ، جو مرکز جماعت اسلامی ہند میں واقع ہے۔ جے این یو دہلی کی طالبہ شامولی نے تقریباً ڈیڑھ سال قبل اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ نوئیڈا میں مقیم ایک غیرمسلم خاندان کی اکلوتی اولاد ہیں، ان کے قبول اسلام کے بعد ان کے گھر والوں نے اختلاف کے بجائے بہت ہی ایجابی رویہ اختیار کیا، انھوں نے ان پر کسی قسم کی سختی یا پابندی کے بجائے ان کے اس بنیادی حق کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اور ان کے ساتھ محبت اور اپنائیت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
شامولی نے اپنی دینی آگہی بڑھانے کے ساتھ دینی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ وہیں جے این یو میں ایس آئی او کے ایک سرگرم طالب علم سعادت حسین (منگلور) نے انہیں رشتۂ ازدواج کا پیغام بھیجا، جس کو انہوں بخوشی نے قبول کرلیا۔ سعادت کے اہل خانہ نکاح میں شرکت کیلئے منگلور سے دہلی آئے، اور 29 نومبر کو بعد نماز مغرب جماعت اسلامی کے مرکز کی مسجد میں نکاح ہونا طے پایا۔
نکاح کی تقریب میں شریک ہونے کے لئے شامولی کے دادا دادی، ان کے والدین، اور خاندان کے دوسرے بہت سے مرد وخواتین بھی تشریف لائے۔ مسجد کے مرکزی حصے میں ایک طرف خواتین کی نشست تھی ، اور دوسری طرف مرد حضرات بیٹھے تھے ، اور مولانا عنایت اللہ سبحانی نے تقریر فرمائی، تقریر کا ہر ہر لفظ دعوتی جذبے سے سرشار تھا، مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کی تعلیمات شادی کے ذریعے دو افراد اور دو خاندانوں کو سچی محبت اور الفت میں پرودیتی ہیں۔ اللہ سے محبت کرکے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی فکر کرکے زندگی خوشیوں اور برکتوں سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ مولانا نے اسلام کی بہت سی خوبیوں کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کیا، اور خطبہ نکاح کے بعد دولہا دلہن اور دونوں کے خاندانوں کے لئے دل کو چھولینے والی دعائیں کیں۔
نکاح کی تقریب بڑی سادگی سے انجام پائی، نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم ہوئے، مہر بھی بڑا دلچسپ رکھا گیا، پچیس ہزار روپے اور امام رازی کی تفسیر کا انگریزی ترجمہ۔ مجلس نکاح کی سادگی اپنے آپ میں ایک دل پذیر دعوتی پیغام تھی۔
نکاح کی تقریب کے بعد شامولی کے گھر کے تمام مرد بڑے تپاک سے مسلم حاضرین سے گلے ملے، اس کے گھر کی خواتین مسلم خواتین سے گلے ملیں، اور سب نے ایک دوسرے پر محبت اور خیرخواہی کے پھول نچھاور کئے۔
مسجد کے عام حصے میں خواتین کی نشست، غیر مسلم مرد وخواتین کی بڑی تعداد میں حاضری، نکاح کی مجلس میں نومسلم لڑکی کے گھر والوں کی موجودگی، دعوتی پیغام سے بھرپور خطبہ نکاح، سب کچھ انوکھا انوکھا لگ رہا تھا، لیکن سب کچھ بہت اچھا اور انوکھا لگ رہا تھا۔ اس میں مستقبل کے ایک خوبصورت سماج کی امید افزا جھلک نظر آرہی تھی۔
Comments are closed.