”آسان اور مسنون نکاح“ مہم کو مضبوط بنائیں۔

 

 

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

 

اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکر اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیاہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔

اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لئے ضروری بتایا ہے۔اسلام نے نکاح کو احساس بندگی اور شعور زندگی کے لئے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آدھا ایمان بھی قرار دیا ہے۔ جو کوئی نکاح کرتا ہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتا ہے اور باقی آدھے دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔(معجم الاوسط،شعب الایمان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے، ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔(بخاری)

اسلام نے نہ صرف نکاح کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان بنانے کا بھی حکم دیا ہے اور ان تمام باتوں سے رُکنے کا بھی حکم دیا ہے جس سے نکاح میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ہدایت اور رہنمائی دی ہے کہ شادیاں، ہلکی پھلکی اور کم خرچ کی کیا کریں اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شادیوں میں اور ان کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی، آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو الجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح اور شادی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں، اسی بنا پر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔( مسند احمد)

اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ عربی زبان میں جہیز کے لیے کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ عہد نبوی میں جتنی شادیاں ہوئیں، کسی میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ملتا۔

لیکن آج کل شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کا مسئلہ ہند وپاک میں بہت ہی سنگینی اختیار کرگیا ہے۔

اسلام کو ساری انسانیت کے لیے آسان ترین دین سمجھنے والے عام مسلمان سے لے کر سماجیات عمرانیات کے ماہر ترین شخص تک ہر درد دل رکھنے والا عقلمند مروجہ رسم جہیز کی تباہ کاریوں سے پریشان ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مروجہ رسم جہیز کا خاتمہ فی الواقع انسانیت کے لئے بڑی خدمت ہے۔ چنانچہ مسلم طبقے میں شادی بیاہ کے دوران جہیز و دیگر بےجا رسومات کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے ”آسان اور مسنون نکاح“ کے نام سے جو بیداری مہم چلائی جارہی ہے الحمد للہ ملک کے کونے کونے میں اس کے حوصلہ بخش نتائج واثرات ظاہر ہورہے ہیں۔

‌خاص طور پر ان علاقوں میں اس کے اچھے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں عوام میں مقامی علمائے کرام اس مہم کی تائید و حمایت کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر غیر اسلامی اور بےجا رسوم و رواج کو مٹانے کی بھر پور جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے مقامات میں لوگوں کی سوچ میں نہایت تیزی کے ساتھ مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

جب سے آسان اور مسنون نکاح کی مہم کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا ماشاءاللہ مزاج بن رہاہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے جاری آسان اور مسنون نکاح مہم کے تحت بیس دنوں کے اندر راقم الحروف نے دو جوڑوں کا نکاح مدھیہ پردیش میں اور دو کا مظفر پور بہار میں پڑھایا ان چاروں شادیوں کی خصوصیات یہ رہیں کہ بلا کسی رسم و رواج کے نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد ہوئی۔

ابھی پچھلے دنوں مورخہ 15 اکتوبر کو جناب وصی احمد صاحب کے صاحبزادے حافظ محمدآصف اقبال کا عقد مسنونہ مرحوم جناب آفتاب عالم صاحب کی دختر نیک اختر عزیزہ کشف عروج سے کرایا۔ زندگی کے اس اہم موڑ پر اس جوڑے اور ان کے گھر والوں نے سماج اور معاشرے کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کرکے جو مثال قائم کی ہے واقعی یہ حضرات اس کام کے لئے قابل مبارکبادی کے لائق ہیں۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ! ان دونوں کے نکاح کو مبارک فرمائے، ان پر اپنی برکتوں کا نزول فرمائے اور ان دونوں کو بہترین طریقے پر جمع رکھے۔ آمین

 

موجودہ حالات میں آسان اور مسنون نکاح کو فروغ دینے کے لئے گھر گھر جاکر لوگوں کو اس تعلق سے سمجھانے کی ضرورت ہے، اس سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا مزاج بنے گا۔ان شاءاللہ

Comments are closed.