تقسیم نہیں ترمیم کی ضرورت ہے! 

فکر جمیل آخری بات

مولانا جمیل احمد قاسمی

مدھوبنی

گزشتہ دنوں جس طرح امارت شرعیہ کے دستور و روایات کی دھجیاں اڑا کر، حق و انصاف کا گلا گھونٹ کر، دھاندلی، جعلسازی اور دھوکہ دہی کے ذریعے امارت شرعیہ پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس سے ملت اسلامیہ خصوصاً بہار اڑیسہ اور جھاڑکھنڈ کے انصاف پسند مسلمان، علماء مشائخ و دانشوران صدمے میں ہیں۔ ان میں سخت بے چینی و اضطراب پائی جا رہی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ نوجوان علماء کا ایک بڑا طبقہ تینوں صوبوں میں نہ صرف امارت شرعیہ سے اپنی بے زاری، عدم تعاون و بے اعتمادی کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بلکہ ایک الگ امارت شرعیہ کے قیام کی جدو جہد میں مشغول ہیں۔ ان پر آشوب حالات میں اپنی آخری بات اپنے موقف کے بطور واضح کر دینا چاہتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ جن احباب نے عدم تعاون، عدم اطاعت کی تحریک چلا رکھی ہے، یا الگ امارت شرعیہ کے قیام کیلئے کوشاں ہیں، ان کا غصہ جائز ہے ۔ میں ان کے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہوں اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سواد اعظم اور ملی شیرازہ بندی کو خطرے میں ڈال کر ہم الگ الگ راگ الاپنا شروع کر دیں، اور غلط سمت میں جدوجھد کر کے ملت کو بے اثر وبے وزن بنانے میں اپنی توانائی صرف کریں، اس وقت اسلام مخالف عناصر گھات لگائے بیٹھے ہیں، ہم ان کے نشانے پر آچکے ہیں، انہیں ہر پل موقعہ کی تلاش ہے اور ہم ہیں کہ انجام سے بے خبر، آپسی انتشار پھیلا کر موقعہ فراہم کرنے میں لگے ہیں، جو غلطی رحمانی برادران نے کی ہے اس کا تدارک انتشار سے نہیں اصلاح سے ہوگا، تقسیم سے نہیں ترمیم سے ہوگا اور ترمیم واصلاح کا کام باہر والوں کے شور وغل مچانے سے ہرگز نہیں ہو سکتا، جب تک اندر سے ترمیم واصلاح کی آواز نہیں اٹھتی ہے ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں، اس لیئے اپنے اپنے علاقوں کے ارباب حل و عقد، قضاۃ و اُمراء مقامی اور ارکان شوری پر منظم دباؤ ڈالیں کہ وہ اب مندرجہ ذیل ترمیم واصلاح کے لئے اٹھ کھڑے ہوں یا استعفی دیں، ہم سب ان کے ساتھ ہیں.

 

1- مخلص علماء ودانشوران کی اعلی سطحی کمیٹی کے ذریعے 177نئے ارباب حل و عقد کی نامزدگی اور ان کی اہلیت کی جانچ کی جاۓ اور تمام نا اہل افراد کو باہر کیا جائے، اہل اور لائق افراد کو ارباب حل و عقد ضلع وار منتخب کیا جائے.

 

2۔ درست اور صحیح رائےقائم کرنے کیلئے صحیح عمر اور باصلاحیت با اثر ہونا ضروری ہے اس لئےارباب حل و عقد کی عمر اور صلاحیت کا تعین کیا جائے۔

3- جب امارت شرعیہ میں الیکشن کا چلن ہو ہی گیا ہے تو تمام عہدے داران بشمول امیر شریعت کی مدت کار ( دورانیہ) متعین ہو اور الیکشن کمیشن کے طرزِ پر ایک کمیٹی بنائی جائے جو میقات مقرر پر عہدے داران کا انتخاب کا انعقاد کیا کرے گی.

4- امارت شرعیہ چونکہ خالص دینی و شرعی ادارہ ہے جس کی بنیاد ہندوستان کے دائرۂ آئین میں رہکر شریعت کو نافذ کرنے کیلئے رکھی گئی تھی اس لئے اس کے کارکنان و ذمے داران کا صالح اور صاف ستھرا ہونا ضروری ہے، لہذا جھوٹے مکار داغی ملزمین کو امارت سے فوراً ہٹایا جائے.

 

5 -اگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوسکا تو اس ادارہ کو ایک شخصی تعلیمی رفاہی ادارہ سمجھا جانا چاہیے اور اس کے امیر شریعت کو ڈائریکٹر یا چیئرمین کا نام دیا جانا چاہیے اس کے بعد جن کا جی چاہے ان کی نوکری کریں جن کا جی چاہے ان کی بھگتی کریں سماع و طاعت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

جمیل احمد قاسمی (مدہوبنی)

Comments are closed.