شہزادہ سلیم اور انار کلی کا قصہ   

 

ازقلم

رمشا ظفر(سمندری)

آپ سب نے انار کلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کا قصہ تو ضرورسنا ہی ہوگا۔یہ قصہ پاکستان اور سرحد پار کے ادیبوں،ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کے لیے ایک اہم اور دلچسپ موضوع رہا ہے۔لیکن آپ یہ جان کر ضرور حیران ہوں گے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ ایک بالکل ایک افسانوی کہانی ہےاور لوگ اس پر ہی یقین کیے ہوئے ہیں۔اصل افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ادیب اور ناول نگار اس بارے میں تحقیق کیے بغیر اس کہانی کو مختلف اشکال میں پیش کرتے آرہے ہیں۔جب اس بارے میں تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ یہ ایک افسانوی کہانی ہے۔مغل بادشاہ شہنشاہ اکبر کا دور ایک خاص اہمیت کا حامل ہےکیوں کہ اس دور میں ” آئین اکبری” اور "اکبر نامہ” جیسی تصانیف وجود میں آئیں۔ان دونوں کو بہت اہمیت حاصل ہے کیوں کہ ان میں اس دور کے تمام حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں۔لیکن ان تصانیف میں کہیں بھی شہزادہ سلیم اور انار کلی کے عشق کا ذرا سا بھی ذکر نہیں ملتا۔

ابوالفضل جو کہ اکبر کا درباری مورخ تھا، اس نے اس بارے میں ایک واقعہ بیان کی ہے کہ ایک رات ایک آدمی بادشاہ اکبر کے حجرے کے باہر پکڑا گیا۔ جب اسے دربار میں پیش کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ شہزادہ سلیم تھے۔ اس لیے بادشاہ اکبر نے اپنے بیٹے کو معاف کردیا۔لیکن یہاں ہمیں انارکلی نامی کسی کنیز کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ شہزادہ سلیم نے انار کلی کے عشق میں باشاہ اکبر کے خلاف بغاوت کی تھی۔

ایک انگریز سیاح فینچ نےاس بارے میں اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ اکبرکی ایک کنیز بادشاہ کی منظور نظر تھی۔ دو کنیزیں اس کی خوبصورتی سے جلتی تھیں اس لیے انھوں نے اکبر کے دورہ دکن کے دوران انار کلی کو زہر دے دیا۔لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ انار کلی کی قبر کے کتبے پر اگر چہ اس مقبرے پر انار کلی کی تصویر تو مٹ گئی ہے لیکن اس کے کتبے پر ایک شعر لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے شہزادہ سلیم کا نام لکھا ہوا ہے ۔لیکن انگریز سیاح فینچ کی تحریر میں کہیں بھی یہ قصہ شہزادہ سلیم سے منسوب نہیں ہے۔

اس کے علاوہ شاہ عبد الطیف بھٹائی نے بھی اس قصے کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ انار کلی بادشاہ اکبر کی بیوی اور شہزادہ دانیال کی والدہ تھیں۔اکبر کے دور ہ دکن کے دوران وہ بیمار پڑ گئیں اور کچھ عرصہ میں ان کا انتقال ہوگیا لیکن اس بات کی خبر بادشاہ اکر کو نہیں دی گئی۔ جب بادشاہ اکبر دکن سے واپس لوٹےتو اپنی بیوٰی کی یاد میں یہ مقبرہ تیار کروایا۔

اس کے علاوہ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ اس مقبرہ کا نام اس کے اردگرد انار کے باغات کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔کچھ کا کہنا ہے یہ باغات بادشاہ نے اس مقبرے کی شان و شوکت کے لیے لگوائے تھے،جبکہ کھ کا کہنا ہے یہ باغات یہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔ایک اور نامور مورخ اور مصنف نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انار کلی بادشاہ اکبر کی منظور نظر سمجھ سے باہر ہے کہ تھی۔لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پھر قبر کے کتبے پر شہزادہ سلیم کا نام کیوں لکھا گیا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انار کلی کا ذکر اس دور کی کتابوں میں کیوں نہیں کیا گیا حالاں کہ اس دور کی کتابوں میں اکبر بادشاہ کے نعوذ باللہ خدائی کے دعوے کو بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔اگر اس بات کو حقیقت مان لیا جائے کہ یہ مقبرہ انار کلی کی یاد میں بنایا گیا ہےلیکن شہزادہ دانیال کی والدہ کا انتقال 1596میں ہوا تھا، جبکہ یہ مقبرہ تو 1600کے شروع میں تعمیر کیا گیا تھا۔کچھ کاکہنا ہے کہ ابر بادشاہ نے اپنی بیگم کے انتقال پر اس کی یاد میں انار کے باغات لگوائے تھے اور بعد ازاں شہزادہ سلیم نے اپنی بیگم کی محبت میں یہ مقبرہ تعمیر کروایا تھا۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انار کے باغات اور مقبرہ دونوں جدا جدا حیثیت رکھتے ہیں۔

اکبر کے پوتے داراشکوہ نے بھی اپنی ایک تصنیف میں انار کے باغات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں کہیں بھی نار کلی کا ذکر نہیں ملا۔

موجودہ دور میں انار کلی کے قصہ کے خالق عبدالحلیم شرر ہیں۔1922میں میں ایک ادیب اور ڈرامہ نگار سید امتیاز علی تاج نے بھی انار کلی کے قصے کو ڈرامے کی شکل میں ڈھالا تھا۔انگریز سیاح فینچ اور دیگر نے بھی جو کچھ اپنی تسانیف میں لکھا ہے وہ بالکل بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مغلیہ دور میں انگریزوں کی دربار تک بالکل بھی رسائی نہیں تھی۔انھوں نے محض یہ قصہ عام عوام سے سنا اور اور ردوبدل کرکے اپنی تصانیف کی زینت بنا دیا۔

انگریز دور حکومت میں اس مقبرہ کو گرجا گھر میں بھی تبدیل کر دیا گیا تھا۔اب پاکستان میں یہ مقبرے کی صورت میں ہی موجود ہے۔اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ مگر ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں اس مقبرے کی اصل حقیقت میں معلوم کیا جاسکے۔اس قبر کے کتبے پر جو الفاظ تحریر ہیں ان کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

"اے کاش میں اپنی منظور نظر کا آخری بار دیدار کر سکتا تو میں قیامت تک خدا کا شکر گزار رہتا۔”

(شہزادہ سلیم)

Comments are closed.