تریپورہ پر راہل گاندھی کا جرأت مندانہ بیان قابل ستائش ہے

تحریر: مسعود جاوید
ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیہ پر دھکیل دیا گیا ہے اور مسلم نام لینے سے تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے رہنما گریز کرتے ہیں کانگریس رہنما راہل گاندھی کا مندرجہ ذیل ٹویٹ قابل تحسین ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو شاید یہ اندیشہ رہتا ہے کہ مسلمانوں کا نام لینا ان کے نام لے کر مسلمانوں کے مسائل اٹھانا مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنا سمجھا جائے گا جس سے اکثریتی طبقہ ناراض ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے کوئی بھی پارٹی ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔
غالباََ اسی لئے اکھلیش یادو نے چند روز قبل راج بھر کے ساتھ اتحاد کا اعلان کے موقع پر کہا : ونچتوں، شوستوں، پچھڑوں، دلتوں، مہیلاؤں، کسانوں نوجوانوں اور ہر کمزور ورگ کے لئے سماجوادی پارٹی بھارتیہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر لڑے گی ۔۔۔
سیدھے سادے لفظوں میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے لڑے گی یہ کہنا بھی اب گوارہ نہیں ہے۔
٢٠١٤ سے قبل نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو شو کیس میں سجاوٹ کے لئے ، اسٹیج پر بٹھانے کے لئے پوسٹر اور بینرز پر ان کے فوٹو لگا کر سیکولرازم اور شمولیت والی پارٹی کی یقین دہانی کے لئے مسلم چہروں کی ضرورت ہوتی تھی۔
لیکن ٢٠١٤ کی انتخابی مہم کے وقت سے ملک کا مزاج ایسا بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم چہرے کیا مسلم ووٹرز سے بھی بے اعتنائی کی جانے لگی۔ اس کی شروعات بی جے پی نے کی لیکن جلد ہی دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اسی نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح انتخابی سیاست میں مسلمان بے وقعت اور بے حیثیت کر دیۓ گۓ۔
تاہم مسلمانوں کے لئے اس اقلیت اصطلاح کا اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اب استعارہ اور کنایہ سے نہیں بلکہ اقلیت کہتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں جو شبیہ ابھرتی ہے وہ ہے مسلمان۔ اب اقلیت سے مراد "مسلمان” عام فہم تھا ۔ لہٰذا اس سے بھی بچنے کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ اب اس نۓ دور میں لفظ ” اقلیتوں” کا استعمال بھی شاذونادر ہو رہا ہے۔ اس کی جگہ کثرت سےلفظ "دلتوں” کا استعمال ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا ذکر مسلمان کہہ کر لینا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ "اقلیتوں” کے ضمن میں چونکہ مسلم بھی ہیں اس لئے اقلیت کہہ کر کام چلا لیا جاتا تھا۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہوتی تھی کہ مسلمان یا ہندو کہنے سے مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کے شعور کو تقویت ملتی ہے۔ درست لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہب کا نام ترک کر کے ذات برادری کے نام لۓ جانے لگے۔ چنانچہ بہوجن سماج نے سورنوں کے لئے ایودھیا میں اجلاس کیا تو بی جے پی نے ایک طرف او بی سی کو وزارتی عہدوں سے نوازا اور اس کی خوب تشہیر کی تو دوسری طرف برہمن سماج کی منہ بھرائی کی۔ اسی طرح مختلف سیاسی پارٹیاں مختلف برادریوں جاتیوں ؛ یادو، کرمی، تیلی، وغیرہ وغیرہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی ہیں۔
ایک وہ بھی دور تھا جب لالو پرساد یادو کا مسلم + یادو ‘ایم وائی’ سمیکرن ٹاک آف د ٹاؤن ہوتا تھا۔ ملائم سنگھ یادو ” مولانا ملائم” کہے جاتے تھے۔ جن حلقوں میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا وہاں ان کے مسائل کے حل کی بات کی جاتی تھی۔ ۔۔۔۔ لیکن ایسا لگتا ہے اب یہ لفظ کوئی متعدی مرض ہے جسے بولنے سے ان کے جسم میں جراثیم سرایت کر جائیں گے !
الناس على دين ملوكهم … اصولاً ابھی تک یہ ملک کسی ایک دین کے حکمرانوں کا نہیں ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کی اتباع کریں لیکن ملک کا مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی ایک طرف اکثریتی فرقہ کے مذہبی تقریبات اور مقدس دنوں سے اپنی مہم کی شروعات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہر ایسی علامت سے گریز کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی شناخت ٹپکے ۔۔۔۔
Comments are closed.