جاگ مسلماں جاگ! 

 

خالد سیف اللہ موتیہاری

 

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع ملا ،

یہ ملک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے ، اس جمہوری ملک میں جہاں بہت سارے مذاہب کے لوگ ہیں انہیں میں سے ایک قومِ مسلم بھی ہے ، اس قوم کے ساتھ جو یہاں حکومت کا رویہ ہے اللہ کی پناہ!

پڑھ کر ، سن کر ، دیکھ کر ، دل خون کے آنسو روتا ہے، طبیعت بہت زیادہ متاثر ہے، دماغ بہت افسردہ ہے اور عقل ماتم کر رہی ہے.

 

21/ 9 /2021/۔ کو داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کو تبدیلئ مذہب اور غیر ملکی فنڈنگ کا الزامات عائد کرکے اےٹی ایس کی ٹیم نے حراست میں لے لیا اور تفتیش کے لیے بزدلانہ طور پر ایک نامعلوم جگہ پر لے گئے ،

ابھی عمر گوتم کی گرفتاری کا واقعہ ذہن سے مٹا نہیں تھا کہ ایک یہ واقعہ پیش آگیا، پتا نہیں اس ملک میں یہ ہو کیا رہا ہے ؟

کبھی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی، تو کبھی مسجدوں کو مسمار کیا جا رہا ہے ، کبھی مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈا اور اس میں قال اللہ اور قال رسول کے درس دینے والے نائبین رسول کو دہشت گرد کہ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے.

جب کہ یہ نائبین رسول ہر دور میں امن، صلح وآشتی کا پیغام دیتے آئے ہیں ۔ اس واقعہ سے اندازہ لگائیں، کہ آسنسول کی سرزمین پر مولانا امداداللہ رشیدی کے صاحبزادے حافظ صبغت اللہ کو پکڑا جاتا ہے ،

اسکے ہاتھ اور پاؤں کے ناخن اکھاڑ دیے جاتےہیں ، زبان کاٹ دی جاتی ہے ، آنکھیں نکال دی جاتی ہیں بھیجا بہادیا جاتا ہے، سر کو تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ، عضو تناسل کو کاٹ دیا جاتا ہے ، اور لاش کو جلانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس حادثہ کے بعد بھی مدرسے کے ایک ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھنے والا ملا جسے دنیا دہشت گرد کہتی ہے ، وہ صبر و ضبط کا دامن تھامتے ہوئے ان ظالم حکمرانوں، نفرت پھیلانے والے نیتاؤں کو امن بھائی چارگی کا یہ پیغام دیتا ہے:

کہ ہم کو نہ ستاؤ کہ گناہ گار نہیں ہیں

یہ کس نے کہا تم سےکہ ہم وفادار نہیں ہیں

جب دیش نے مانگا ہے لہو ہم نے دیا ہے

ہم فخر وطن ہیں ہم کوئی غدار نہیں ہیں

 

اے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں، اس وقت تری پورہ میں برما کا سما ہے، ہندتوا دہشت گرد تنظیموں نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ خون ریزی اور آتش بازی کر رہے ہیں، مسجدوں کو مسمار ، قرآن کی بے حرمتی ، آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی ، معصوم مسلمانوں کے گھروں کو نظر آتش ، اور نوجوانوں

کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کی طرف سے خاموشی نظر آرہی ہے، ان کی خاموشی سے یہ پتا چل رہا ہے کہ یہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں.

 

ذرا پہلے نہ پہچانی نگاہ باغباں ہم نے

سمجھ جاتے ! نقشہ اور ہی ہوتا گلستاں کا

 

ان 67 سالوں میں جتنا ظلم نہیں ہوا وہ ان 8 سالو میں ہوا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ : مسلمانوں نے بھی 800 سال تک اس ملک پر حکومت کی ہے لیکن کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا ،

اس لئے اے میرے نوجوان ساتھیوں! اٹھو کب تک ظلم سہوگے، آؤ ایک مرتبہ پھر سے متحد ہو کر گلشن کا نظام بدلتے ہیں ورنہ ہمارا حال وہی ہوگا جو بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا.

 

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن

منتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو

Comments are closed.