اخلاق

 

فراز حسین (بنگہ حیات)

آج کل ہمارے معاشرے کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب اخلاق کی عدم دستیابی ہے۔ اخلاق کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق ہو کسی بھی قوم کا فرد ہوں اخلاق کی بالادستی لازم و ملزوم ہے ۔اخلاق ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو بشر کو حیوانات سے افضل بناتاہے آج انسان حیوانیت کی روش اختیار کیے ہوئے ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو مارک ٹوین اپنی ایک تحریر میں یہ نہ لکھتا:

“Man is the worst among all the animals”

” انسان جانوروں میں سے بدترین جانور ہے”

اس ناقابل فراموش سچ کو بیان کرتے ہوئے بھی آنکھ اشک بار ہوتی ہے۔ کہ انسان اپنے اخلاق کی پستی کی وجہ سے حیوانات سے بھی بدترین کہا جا رہا ہے ۔کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی راہ پر چلنا تو دور ان کو چھو بھی نہیں سکتی جب تک تو اپنے اخلاق وہ درست نہیں کرتے۔

اچھے اوصاف اور کردار وہ صفات ہیں جن پر کسی قوم کے استحکام اور خوشحالی کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں ۔اخلاقی بگاڑ پورے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے ۔اور اخلاق کا نکھار پورے معاشرے کی تصیح کرتا ہے ۔اخلاق کے سنورنے سے معاشرے اور اقوام مہذب بنتی ہیں۔ اس کے برعکس اخلاق کی عدم موجودگی کی صورت میں جھوٹ اور بددیانتی جیسی برائیوں کے ساتھ ساتھ نا انصافی ،حیا سوزی اور بے شرمی پروان چڑھتی ہے ۔اقوام کی زوال پذیری میں اخلاق باختگی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔آپ اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نہ جانے کتنے حیوانات کی ریوڑ انسانوں کے روپ میں موجود ہیں اور انسانی اقدار کو پامال کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسن اخلاق کس طرح عوام کو سنوارنے کا باعث بنتا ہے ؟بات دراصل یہ ہے کہ جب تک اخلاقی حسن لوگوں میں باقی رہتا ہے ،وہ اپنے فرائض بخوبی اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح بداخلاقی معاشرے کو بے حس اور مردہ کر دیتی ہے ۔بدقسمتی سے یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے۔ حالانکہ ہمارا معاشرہ خالصتا اسلام کے اصولوں پر مبنی زندگی گزارنے کا دعویٰ کرتا ہے ۔میں آج سب سے یہ پوچھتا ہوں۔ کہ کیا اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے جو اس معاشرے میں جاری و ساری ہے۔

اسلام تو وہ واحد دین ہے جس کی تبلیغ واشاعت ایسے نبی نے کی جو اخلاق میں بے نظیر تھے۔ جنہوں نے اپنے اخلاق کی بنیاد پر رحمت اللعالمین کا درجہ حاصل کیا۔ جنہوں نے اپنے اعمال کے ذریعے اپنے اخلاق اور کردار کی اعلی مثال قائم کی ہے ۔

آپ کے نبی نے زندگی کا ہر لمحہ اخلاق کی تربیت کی۔

ارشاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛

تم میں سے سب سے بہتر وہ آدمی ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں”۔ (صحیح بخاری نمبر #6029)

یہاں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر آپ نےایک بہترین مشروب بنایا اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ چھوڑی ، ذایقے کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہو صحت کے لئے بھی وہ قابل رشک حیثیت رکھتا ہو۔ مختصر یہ کے وہ تمام خصوصیات رکھتا ہو۔ جو آپ کو مسحور کرنے کے لیے کافی ہو. لیکن اگر آپ اس مشروب کو کسی ٹوٹے ہوئے برتن میں پیش کریں گے ،وہ اپنی تمام اہمیت کھو دے گا تو کوئی اس کو پینا پسند نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر آپ بھی اچھی بات کتنی بھی مسحورکن بات سخت لہجے میں کریں گے تو اس کی تاثیر ختم ہو جائےگی ۔کوئی بھی اس کو اتنی اہمیت نہ دے گا جتنی اس کو ملنی چاہیے لیکن اگر آپ کوئی عام سی بات پیار اور میٹھے لہجے میں کریں گے تووہ بات دل میں اترتی چلی جائے گی۔

یہی بات ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور یہ تربیت دی کہ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا بد خوئی کرے ،تو اس کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ اچھے الفاظ میں اس کو دعا دو اور اس کا جواب اتنے پیار محبت سے دو کہ اگلا شخص آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر اچھے اخلاق کو اپنانا شروع کر دے۔

تو اگر ہم نبی آخرالزماں کی تربیت کا کوئی اثر نہیں لیتے تو ہم مسلمان کہلوانے کو بھی قابل نہیں ۔ایسے میں اپنی ناپاک زبانوں سے ہم اسلام ،اللہ اور رسول کا نام لینے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے ۔کیو نکہ

؎ گر نہ داری از محمد رنگ و بو

از زبان خود میسا نام او

اب ان عوامل کی طرف آ تا ہوں جو اخلاق باختگی کا باعث بنتے ہیں ۔سب سے پہلے بری صحبت حیا سوزی کا اہم سبب ہے ۔بری صحبت کا ہی اثر جلدی کیوں پڑتا ہے؟۔انسانیت کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ ہمیشہ ایک گندی مکھی کی مانند سامنے والے کی ہمیشہ برائی ہی نوٹ کرتا ہے ۔مثال کے طور پہ اگر کوئی شخص مجلس میں بیٹھا ہے اور ان میں سے ایک فرد نماز کے لیے اٹھتا ہے تو اس کی دعوت کے باوجود کوئی اس کے ساتھ جانے کو تیار نہ ہوگا ۔لیکن اگر ایک شخص سگریٹ نوشی کر رہا ہے تو چاہے ایک کش ہی سہی لیکن اس برائی میں حصہ ڈالنے کو ہر لمحہ ہر شخص تیار رہے گا۔کیو نکہ برائی میں مصنوئی لذت ہے جو وقتی طور پہ تو چاشنی رکھتا ہے لیکن آخرت کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

دوسرا اہم فیکٹر ہمارے جو اخلاق باختگی کا سبب بنتا ہے وہ ہمارے دین کے وہ ٹھیکیدار جن کو ہم دینی علماء کہتے ہیں جو فرقہ واریت جیسی آگ کو وجہ بنا کر ایسی حیا سوز باتیں کرتے ہیں کہ ان کے پیرو کار متاثر ہو کہ انہی کی باتوں کو پلے باندھ کر اپنا اخلاق پستی کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں۔

اور بہت سے ایسے عوامل ہیں جو انسانیت کو بد اخلاقی جیسی دیمک کے ذریعے کھارہے ہیں۔اگر آج ہم اپنے اخلاق کو درست نہیں کرتے تو جلد ہی ہمارا نام مہذب اقوام سے مٹ جائے گا۔خدارا اپنے اور اپنے احباب کو بد اخلاقی کے خول سے نکلنے میں مدد کریں ورنہ مقام کھونے کا سب سے بڑا ذریعہ بداخلاقی ہے۔رب کریم سے قوم کی بہتری کے لیے دعاگو رہیں۔جزاک اللہ

Comments are closed.