فلسفہ تبلیغ اور امریکہ کی حالیہ شکست

فتح محمد ندوی
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
حال ہی میں دنیا کی سپر پاور۔ جدید تکنیکی ہتھیار سے مسلحہ دنیا کی سب سے طاقتور فوج اور ملک امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی ہوئی افغانستان کے ہاتھوں ذلت ناک شکست نے جہاں تبلیغی جماعت کے اس فلسفہ کو جس میں اسباب کی نفی اور ایمان و یقین کی پختگی اصل معیار زندگی اور حاصل زندگی قرار پایا ہے بلکہ خلاصہ حیات عنوان اور نشان ہے۔تبلیغی جماعت پہلے دن سے تاحال اپنے اسی مشن پر مضبوطی سے رواں دواں اور گامزن ہے۔اس تحریک کے روح رواں اول سرخیل۔ میرکارواں اور محرک حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی نوراللہ مرقدہ نے پھر آپ کے جانشین حضرت مولانا یوسف صاحب کاندھلوی نوراللہ مرقدہ نے اپنے وعظ اور خطاب میں ہمیشہ اسباب کی نفی اور یقین کی پختگی پر مکمل زور دیا ہے۔ قران کریم بھی ان کے اس دعویٰ کے ثبوت پر گواہ ہے۔ اور نہ ہمت ہارو اور نہ غم کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن رہے۔ (سورہ آل عمران: 139) دنیاوی زندگی کی فلاح اور کامیابی کا مدار اور انحصار اسی فلسفہ اور اصول پر ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی اصلاح اور ایمان و عمل کی پختگی پر محنت کرے کیونکہ اس کے بغیر ہر نقش ناتمام اور نامکمل ہے۔
دنیا میں اس وقت دو طرح کے لوگ ہیں بلکہ دو فکر و خیال اور نظریات کے حامی مسلمانوں کے مفکر ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو صرف مسلمانوں کی مکمل فلاح اور ترقی اس بات میں خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا کے جدید بدلتے ہوئے حالات اور احوال کے پیش نظر جدید علم و تحقیق کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ تاکہ اپنی نئی نسل کو اس قابل بنایا جائے کہ معاصر دنیا کے چیلنج نئی سوچ اور اسی زبان اور انداز سے مقابلہ کر سکیں۔دوسرا طبقہ اس مذکورہ فکر و خیال کی سر ے سے بالکل نفی کر تا ہے۔ اس طبقہ کا خیال یہ ہے کہ جب ایمان پختہ اور یقین مکمل ہو جائے گا تو دنیا کے دوسرے تمام مسائل اور چیلنج با آسانی حل ہو جائے گے۔
یہ بات یاد رہے کہ علم کے حصول کے حوالے سے اسلام کا یہ نظر یہ ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض سمجھتا ہے۔ دوسرے اس امت کے اوصاف اور صفات میں جہالت کا تصور سرے سے خارج ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر ہر ہر جز اور عدد میں معجزات کے اعتبار سے اسی طرح اپنی باطنی صفات اور خصوصیات کے لحاظ سے آپ تمام انبیاء پر بدر جہا فائق ہیں اور ممتاز ہیں ۔ یعنی وہ معجزات جو تمام انبیاء کو عطاء فرمائے گئےان میں بھی آپ کی شان امتیاز دیگر انبیاء پر ثابت اور حاصل ہے۔اسی طرح آپ کی مخصوص شان غالب علم و حکمت ہے۔ آپ کو قرآن کریم کی شکل میں جو دائمی معجزہ عطاء فرمایا گیا ہے وہ بھی آپ کی شان فضیلت اور شان مرتبہ کا اعلان اور اعتراف ہے ۔ بقول حضرت قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ۔حتی کہ آپ کا سب سے بڑا اور دائمی معجزہ ہی علمی ہے۔ جو قرآن کی صورت میں تیرہ سو برس سے بڑے چیلنجوں کے ساتھ امت کے سامنے جلوہ فرما ہے۔ اور قیامت تک انہی چیلنجوں کے ساتھ اپنا اعجاز دکھاتا رہے گا۔ کوئی حکمت و دانائی کی ایسی بات نہیں جو اس میں معجزانہ طریق پر موجود نہ ہو انسانی زندگی کا کوئی کھلا اور چھپا ہوا شعبہ ایسا نہیں جس کے شائستہ بنانے کا نہایت مکمل اور نا قابلِ ترمیم دستور العمل اس میں نہ پیش کیا گیا ہو قوانین دیانت۔ آئین سیاست۔ دستور ملکی۔ تدبیر منزل۔ تہذیب نفس۔ علوم معاش و معاد اخبار امم اسباب عروج و زوال اقوام۔ پند و مواعظ۔ عبر و امثال۔ حکم و اسرار قصص ملوک سوانح انبیاء وغیرہ۔(اسلام اور مغربی تہذیب: ۳۱)
جس طرح آپ کی غالب شان علم و حکمت ہے۔ اسی طرح آپ کی امت کی شان بھی علم و معرفت۔ تلاش و جستجو میں دیگر امتوں پر موجود ہے۔ اس امت نے علم و تحقیق کے میدان میں جو فتوحات سمیٹی ہیں۔ وہ تاریخ کے صفحات پر آج بھی پوری توانائی اور تابناکی سے روشن اور منور ہیں۔ بلکہ اس امت کے محققین اور سائنسدانوں کی تلاش و جستجو اور علم و حکمت کی فصل گل سے پوری دنیا چمن زار ہے۔ بہ قول اقبال:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل اور گھٹائیں۔
یہ گنبد افلاک۔ یہ خاموش فضائیں
اگرچہ اب یہ نشتر تحقیق کند ہوچکا ہے۔بلکہ دنیا کی رہنما اور معلم قوم بانجھ ہوچکی۔ اب وہ ساحل سے کنارہ کرتے ہوئے بھی خوف میں مبتلاء ہے۔ غواص تو کجا اور دور کا سودا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اسلام عصری علوم کے حاصل کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ خود اس امت مسلمہ میں بڑے بڑے سائنٹسٹ۔ ڈاکٹرز۔ مورخین۔ فلاسفر۔ غرض ہر میدان کے شہسوار پیدا ہونے۔اور آج بھی ایسے لوگ ہمارے پاس موجود ہیں جو علم و تحقیق کے میدان میں اپنی انفرادیت تسلیم کراچکے ہیں۔
البتہ اسلام ایسی تعلیم کا مخالف ہے جس کو حاصل کر نے کے بعد انسان بے دین ہوجائے۔ مادیت پرست اور عقل پرستی کا غلام بن جائے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت دل سے نکل جائے۔ اسلاف کے طرزِ حیات کو قدامت پسندی سے تعبیر کرنے لگے۔دینی شعار کا مذاق اڑانے لگ جائے۔عقائد خراب ہو جائیں۔ یا دین کے کسی جز کو کمتر سمجھنے لگے۔تو ایسی تعلیم سے جو دین سے انسان کو بیگانہ اور بیزار کردے۔ اسلام ہر گز ایسی تعلیم کی اجازت نہیں دیتا۔کیونکہ اسلام کا مقصد حصول علم سے یہ ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور عرفان عطاء ہو۔ روح دین سے شناسائی حاصل ہو۔اللہ تعالیٰ کے دربار میں جواب دہی کا احساس ہو۔
دنیا میں اس وقت تک کوئی صالح انقلاب نہیں آ سکتا۔یا اس انقلاب کی صلح اور صالحیت ثمر آور نہیں ہو سکتی۔ جب تک ایمان اور عقیدہ میں پختگی نہ ہو یقین کامل نہ ہو۔اللہ تعالیٰ سے مضبوط رشتہ قائم نہ ہو۔اسلام کے فلسفے کے مطابق تعلیم کا یہ تصور ادھورا اور ناقص ہے۔
Fateh Mohd nadwi
24ربیع الاول مطابق 31 اکتوبر بروز اتوار
Comments are closed.