کیا تری پورہ کی چیخ و پکار ہمیں سنائی نہیں دیتی ہے ؟

 

 

محمد زکریا ممتاز

دیناج پور بنگال الہند

 

میرے گھر پر صرف میرا چار سال کا بیٹا اور میری بیوی تھی، رات کے اندھیرے میں انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا یہ وہ الفاظ ہیں جو جگر کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کافی ہیں.

ملک ہندوستان کے شمال میں تری پورہ کے ناکوٹی ضلع میں رہنے والے عبدالمنان کہتے ہیں کہ ” ہندوتوا آتنکی رات بارہ بجے ان کے گھر پراچانک حملہ آور ہوتے ہیں ،اور رات ہی رات انہیں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے "-

کتنی حیرت کی بات ہے نا!

کرکٹ میچ کی ہار جیت پر واٹس ایپ اسٹیٹس لگانے اور ٹوئٹ کرنے پر ایف آئی آر اورگرفتاری بھی ہو جاتی ہے، لیکن آج مشرقی بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل تری پورہ تقریبا دس دن سے ظلم و ستم کی چپیٹ میں ہے ، مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے.

صحیح کہا ہے کہنے والے نے کہ :

اس حمام میں تو سبھی ننگے ہیں : ممتابنرجی کوصرف بنگال کے مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے ، تواکھلیش یادوکویوپی کےمسلمانوں کےووٹ کی.

یادرکھیں ! بلکہ اپنے ذہن ودماغ میں یہ بات بٹھالیں ! بھارت میں اب کوئی پارٹی سیکولرنہیں رہی ، سبھی پارٹیاں اپنے مطلب کی حد تک ہی سیکولر ہیں، کیا یہی ہے گنگا جمنی تہذیب؟

مسلمانوں کی مقدس و متبرک کتاب قرآن کریم کو نذر آتش کیا جا رہاہے، مساجد میں آگ لگائی جا رہی ہے ، دکان و مکان میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے اور حکومت گونگی بہری بنی بیٹھی ہے.

حد تو تب ہوگئی کہ یہ شرپسند عناصر مسلمانوں کے گھروں کو جلاتے ہوئے ویڈیو بنا کر جئے شری رام کے نعرے کے ساتھ اسے وائرل بھی کر ر ہے ہیں ، پھر بھی وہاں کی نکمی پولیس ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے ، وہاں کی نکمی پولیس پہلے تو اس ظلم و ستم کو صحیح بتاتی ہے پھر اپنے آقاوں کے تعمیل حکم میں افواہ بتاکر تمام معاملات کو رفع دفع کرنا چاہتی ہے.

اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو بہت جلد پورا ملک فساد کی چپیٹ میں آجائے گا ، کیوں کہ ان لوگوں نے جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے فقط مسلم دشمنی کی بنا پر، اقلیت واکثریت تو پورے ہندوستان میں ہیں ، اور وہاں تری پورہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، اس لیے ان پر حملے ہو رہے ہیں ، اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو ان فسادیوں کے فساد کو روکا جائے اور ان کے خلاف جلد از جلد کاروائی کرکے وطن عزیز ملک ہندستان کے امن و امان کی حفاظت کی جائے۔

 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک ہندوستان کے کسی بھی گوشے اورخطے میں کسی قسم کا بھی فساد ہو ، آندھی ، طوفان یا سیلاب آجائے ، تو سوشل میڈیاپر بیٹھے بہت سے لوگ اپنے اپنے قائدین کو اس طرح ٹارگیٹ کرتے ہیں جو ان کی شایان شان بالکل بھی نہیں ہے۔ہاں ! یہ اوربات ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا غلط نہیں بل کہ اپنا حق ہے ، لیکن اسے درست نہج اور صحیح ڈھنگ سے پیش کرنا بھی اخلاقی فریضہ ہوتا ہے ،صرف طنز و تنقید کے ذریعے ہی اپنی آواز بلند کرنا صحیح طریقہ نہیں ہوتا ہے –

آج کل یہ ایک وطیرہ بنتا جا رہا ہے کہ جہاں کہیں کچھ افراتفری مچ جائے ،یا فساد برپا ہو جائے تو لوگ فورا کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں تنظیم نے کچھ نہیں کہا ، فلاں نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ، ایسا کہنے والے خود تو کبھی کچھ نہیں کریں گے ، بس دوسروں کو نشانہ بنا کر مزید فتنہ پھیلانے میں پیش پیش ہونگے۔

 

کب تک آپسی رسہ کشی میں ہم جیتے رہیں گے ؟ خدارا ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے کی بجائے متحد ہوجائیں ، اور اصل مدعے پر غور کرکے کوئی لائحہ عمل طے کریں ، ورنہ آج وہ لوگ ہیں کل آپ کی بھی باری آسکتی ہے ، عقل مندی یہی ہے کہ قبل ازوقت ہوشیار ہوجائیں ۔

Comments are closed.