مرنے کے بعد آئے ہیں رونے مزار پر!!! 

 

 

نور اللہ نور

 

زخم جب تازہ ہو اس وقت اگر مرہم پٹی کی جائے ، علاج و معالجہ پر دھیان دیا جائے تو وہ زخم وہیں پر درست ہوجاتا ہے ورنہ وہ ناسور کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو ناقابل علاج بن جاتا ہے اور ہزاروں دوائیوں کے بعد بھی اس کا مداوا نہیں ہوپاتا ہے.

مسلم کش فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور ایک طویل دل خراش تاریخ ہے جو نہ جانے کہاں جا کر ختم ہوگا اور کب ختم ہوگا ؟ ہم نے اور ہمارے بڑوں نے اس زخم کے علاج کرنے میں اور اس کے سدباب کرنے میں کوئی ٹھوس، منظم ، مستحکم اقدام نہیں کیا اور رفتہ رفتہ یہ زخم ناسور بن گیا، دہلی جلی ، گجرات میں نسل کشی ہوئی ، بھاگلپور جل کر خاکستر ہوا مگر ہم نے چند مذمتی بیان، احتجاجی مظاہروں، ریلیف تقسیم کرنے کے سوا کوئی منظم کارنامہ انجام نہیں دیا جس سے اس لعنت کا سد باب ہوسکے ، یہی وجہ ہیکہ اب تریپورہ فرقہ پرستوں کے نذر ہوگیا اور ہم بس دیکھتے رہے

اگر ہم ہماری نمائندہ تنظیموں اور انفرادی طور پر اپنے عمل کا محاسبہ کریں تو ہم تہی دست نظر آئیں گے اور ہمیں اس بات کا علم ہوجائے گا کہ ہم ملی مسائل اور اس لعنت کے سدباب کرنے سے کتنے بیزار رہے ہیں ؟ ہم نے انتخابات میں ہزاروں نمائندوں کو منتخب کیا مگر ایک یا دو کے علاوہ کسی نے کھل کر اس کی بندش پر بات نہیں کی یہی وجہ ہے کہ بدستور فرقہ وارانہ فسادات جاری ہے بلکہ اب یہ مزید قوت اختیار کرتا جارہا ہے.

فسادات کے بعد اس کی مکمل تفتیش، پختہ ، ٹھوس چھان بین کر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے ، بوقت فساد حتی المقدور اس کی روک تھام کےلئے کوشاں رہنا چاہیے، ہمارے ایم ایل ایز جن کے اختیارات میں پولیس ہوتی ہے ، میڈیا ہوتی ہے، پاور ہوتا ہے اس کے دفاع کے لئے انہیں آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہیے.

مگر اس کے برعکس سارے لوگ جلتی بستیوں کا بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں، اپنے خواب گاہ میں بیٹھ کر ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں ، ٹیلی ویژن اور نیوز میں آکر جھوٹی تسلی دیتے ہیں اور جو کام کرنے کے ہوتے ہیں وہ فراموش کر دیتے ہیں یا پھر شاید عہدے کے فوت ہونے کے خوف سے چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں.

اور اگر کوئی تنظیم کچھ زیادہ نرم گوشہ رکھتی ہے اور اپنے آپ کو خدمت گزار باور کرانا چاہتی ہے تو ساری آبادی کے ویران ہونے کے بعد ریلیف ٹیم لیکر جائے وقوع پر پہونچ کر اپنا فرض منصبی پورا کردیتی ہے اور بس…

آپ جب فساد سے قبل اس کے سدباب کی تدبیر اختیار نہیں کرتے ہیں ، اس کے روک تھام کے لیے آپ کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہوتا ہے تو پھر کچھ رقم دیکر ، اور معمولی توشہ دیکر کیسے مطمئن ہوجاتے ہیں؟ کہ سارا مسئلہ حل ہوگیا ، آپ کے عمارت تعمیر کرانے کا کچھ فایدہ ہی نہیں ہوگا کیونکہ جب مکیں ہی نہیں رہے گا تو مکان کس بات کے لیے؟ جس گھر کا چراغ فساد کے نذر ہوگیا ہو تو اس معمولی سعی سے اس کا گھر کیسے روشن ہوگا ؟ بستیوں کے لٹ جانے کے بعد ہمارا جانا بے سود ہی نظر آتا ہے کیونکہ جب تک اس کو جڑ سے ختم نہیں کیا جائے گا ان چند اعواض سے کچھ فایدہ نہیں کیونکہ آج ہم لٹے ہیں کل کسی اور کی بھی باری آسکتی ہے

 

ہماری تنظیم ہمارے اکابر یقیناً کام کر رہے ہیں اس کی نفی نہیں کی جاسکتی لیکن کام کے طریقے کار کو بدلنا ہوگا اور دفاعی پہلو کے بجائے اقدامی پہلو پر توجہ دینی ہوگی ، ورنہ جس طرز پر ہماری تنظیم کام کر رہی ہے اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ خطرہ لگا ہی رہے گا ..

 

ہمارے اس عمل پر ہمارے لوگ یہی گویا ہونگے کہ بھائی! جب ہم لٹ چکے ہیں ، ہمارے گھر ویران ہوچکے ہیں تو اب نوحہ خوانی کی کوئی ضرورت نہیں مرنے کے بعد مزار پر رونے کا کوئی فایدہ نہیں بلکہ اس بات کی فکر کی جائے کہ اس کو پنپنے ہی نہ دیا جائے.

Comments are closed.