"محبت”

اریج فاطمہ (دوالمیال، چکوال)
محبت اللہ پاک کی عطا کردہ ایک بیش بہا نعمت ہے۔ یہ ایک نہایت پاک اور قیمتی جذبہ ہے ، یہ ایک خوبصورت احساس کانام ہے ۔ محبت کبھی مرتی نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محبت شدت اختیار کر لیتی ہے لیکن اس میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ محبت کرنے والے تو اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، یہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یوں تو ہم اپنے والدین ، بہن بھائیوں ، دوست احباب ، اساتذہ کرام اور عزیزواقارب سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ صرف ان رشتوں سے ہی نہیں بلکہ دنیا کے مال ودولت، شکل و صورت اور دنیاوی آسائشوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ وطن سے محبت کا جذبہ بھی ہمارے دلوں میں موجزن رہتا ہے۔ غرض یہ کہ ہمیں دنیا میں موجود ہر اُس چیز سے محبت ہوتی ہے جس سے ہم منسلک ہوتے ہیں ، جسے ہم پسند کرتے ہیں، جس سے ہمیں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ دورِ حاضر میں لفظ محبت کو تو ایک کھیل بنا دیا گیا ہے۔ محبت کو حرص و ہوس کا نام دیا جاتا ہے ۔ لوگ محبت کے اصل معنی بھول بیٹھے ہیں ۔ لوگ محبت کے اصول وضوابط، محورومرکز سے ناآشنا ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ لوگوں کی پسند اور محبتیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ محبت کوئی لباس تو نہیں کہ آئے روز بدل لیا جائے۔ محرم رشتوں سے تو محبت کرنا ایک فطری اور جائز عمل ہے لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہر دوسرا نوجوان عشق کا بیمار بنا بیٹھا ہے۔ ہماری نوجوان نسل نامحرم رشتوں کی محبت میں گرفتار ہوتی چلی جارہی ہے۔ محبت کرنا گناہ تو نہیں لیکن محبت میں بہک جانا گناہ ہے۔ ہر نوجوان ہی محبت کے نام پہ گناہ کا مرتکب ہوا چلا جاتا ہے، ناجائز عشق و محبت میں بہکتا چلا جا رہا ہے۔ آج کل کی محبت تو فقط شکل و صورت ، ظاہری شان وشوکت اور جسموں پر محیط ہے۔ محبت تو روح سے، سیرت سے، کردار سے ، اخلاق سے ہوتی ہے ، نہ کہ جسموں سے ۔ ہمارے معاشرے کی تو یہ روایت بن چکی ہے کہ محبت کے نام پہ کئ زندگیاں تباہ کر دی جاتی ہیں۔ جسم کی حوس کو پورا کرنے کے لیئے عشق و محبت کا کھیل رچایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت کبھی مجبوریاں بیان کر کے تعلق ختم کر لیا جاتا ہے تو کبھی کبھی گھریلو مسائل کا ذکر کر کے اور کبھی خاندان سے باہر شادی نہ کرنے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے سانحےلڑکی کی زندگی پر بہت گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں لیکن لڑکوں کی زندگی پر ایسے واقعات اثرانداز نہیں ہوتے اور نہ ہی اُن کو ایسے سانحوں سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ لڑکیوں کی زندگی تو جہنم بنا دی جاتی ہے، لڑکی کی عزت کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ لڑکیوں کی زندگی تو ایک آئینے کے جیسی شفاف ہوتی ہے۔ اگر آئینے میں ذرا سی کھروچ آ جائے تو اُس کی شفافیت میں کمی آ جاتی ہے ، اُس میں عکس واضع دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح لڑکی کی عزت بھی بہت نازک اور آئینے کی طرح شفاف ہوا کرتی ہے۔ اگر لڑکی کی عزت پر کوئی داغ لگ جائے تو اُس کی عزت پر سے وہ داغ کبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ جب بھی لڑکی کا ذکر کیا جائے گا تو اُس پر لگائے گئے داغ اور بدنامی کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ اپنے خاندان کے لوگ ، عزیزواقارب اور دوست احباب بھی بات بات پر طعنے دینے لگتے ہیں۔ مرتے دم تک بدنامی کا ٹیگ اُس کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح لڑکی کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ، اُس کا جینا محال ہو جاتا ہے۔ایسے سانحوں کے بعد بھی لڑکوں کی زندگی تو مشکلوں سے، تکلیفوں سے دُور ہی گزر جاتی ہے۔ لڑکوں کو تو کھیلنے اور تفریح کا سامان چاہئیے ہوتا ہے ، جب کبھی دل بھر جائے اور لڑکی میں دلچسپی نہ رہے تو خود کو اُس تعلق سے آزاد کروا لیا جاتا ہے، اور لڑکی کو دھتکار کر چھوڑ دیا جاتا ہے یا بلاوجہ ٹُھکرا دیا جاتا ہے۔ یہ سانحے ہمارے معاشرے کی لڑکیوں کے لیئے زندگی بھر کا رونا بن جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ محبت میں سب جائزہے لیکن یہ غلط کہا جاتا ہے ۔ آج کل کی محبت کو اگر ہوس کا نام دیا جائے تو یہ ہر گز غلط نہیں ہو گا۔ ایسی محبت میں سب جائز نہیں ہوتا لیکن جائز سمجھا جاتا ہے جو کہ ہماری نوجوان نسل کی انتہائی غلط سوچ ہے۔ لوگوں نے تو اس بات کو فلمی ڈائیلاگ بنا رکھا ہے کہ محبت میں سب جائز ہے۔ درحقیقت ایسے لوگ محبت لفظ کے معنی،اس کی اہمیت , غرض محبت کے کسی پہلو سے آشنا ہی نہیں ہوتے ۔ایسے لوگ محبت کو فقط ایک کھیل سمجھتے ہیں اور اس کھیل کو کھیلنے کے لیئے وہ لڑکیوں کو بطور کھلونا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کھلونے سے کھیل کر اُسے پھینک دیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح لڑکی کے ساتھ محبت کا کھیل کھیل کر، اُس کے جذبات واحساسات کو کُچل کر ،اُسے استعمال کر کے کسی فضول چیز کی طرح پھینک دیا جاتا ہے یا پھر بےیارومددگا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسی محبتوں کو کبھی منزل نصیب نہیں ہوتی ، وہ ہمیشہ بھٹکتی پھرتی رہتی ہیں۔ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتی ہیں۔ محبت اگر کرنی ہی ہے تو اُس پاک ذات سے کیوں نہ کی جائے جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، جو پوری دُنیا کا خالق ومالک ہے، جو ہر شے پہ قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تو انسان کا تعلق بہت مضبوط ہونا چاہیئے ، اللہ کی ذات سے ہی ہمیں حقیقی عشق ہونا چاہیئے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:
“اے ابنِ آدم”
"ایک میری چاہت ہے ،ایک تیری چاہت ہے ،
تو ہوگا وہی جو میری چاہت ہے،
پس اگر تو نے سپرد کردیا اپنے آپ کو اسکے جو میری چاہت ہے ،
تو میں وہ بھی تمہیں دونگا جو تیری چاہت ہے ،
اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے ،
تو میں تمہیں تھکا دونگا اس میں جو تیری چاہت ہے ،
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے”
ہماری سبھی محبتوں کا محورومرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنی چاہیئے کہ وہ ہمیں دنیاوی مال ودولت، دنیا کی آسائشوں اور نامحرم رشتوں کی محبت میں کبھی گرفتار نہ کرے۔ اگر کبھی کسی کومحبت ہو بھی جائے تو ہر محبت کی منزل نکاح ہو۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت طلب کرنی چاہیئے ، اللہ کی قُربت طلب کرنی چاہیئے تا کہ ہم اللہ پاک کے قریب رہ کر گناہوں سے بچ سکیں،تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے اور ہم دنیاوآخرت میں کامیاب وکامران ہوسکیں۔ آمین ثم آمین
Comments are closed.