کامیابی اور اپنی ذات

اقصیٰ فاروق،خوشاب
کامیابی سکونِ قلب کا نام ہے،اپنی کوششوں سے یکسر مطمئن ہونے، اپنے سفر کے ہر اتار چڑھاؤ کو خوش دلی سے قبول کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا نام ہے۔زندگی پھولوں کی سیج نہیں وہ جو کانٹوں بھرے رستے پر بھی مسکرا کر گزر جائے وہ کامیاب ہے۔
کامیابی کا معیار ہر انسان کی نگاہ میں یکساں نہیں۔آج دولت اور شہرت کامیابی کا معیار بن گیا۔اگر حصولِ دولت کامیابی ہے۔پھر قارون کامیاب کیوں نہ ہوا؟ اگر آپ کہتے ہیں شہرت کا حصول کامیابی ہے تو فرعون کیوں کامیاب نہ ہوا؟
کامیابی زندگی کو جینے کا نام ہے۔کسی کی چہرے پر مسکراہٹ لانے کا نام ہے۔کسی کی اداس زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دینے کا نام ہے۔
کامیاب انسان کی شخصی خصوصیات اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔وہ اپنی ذات کے ساتھ سچا ہوتا ہے۔اس کا ایمان ہوتا ہے کہ میری ذاتی دیانت،میری ایمانداری، میری سچائی میرا کل اثاثہ ہے،میرا متاعِ حیات ہے۔
اپنی ذات سے سچا شخص اپنی ہر خوبی اور خامی قبول کرتا ہے۔ اُسے قبول کر کے خود کو سنوارنے اور بہتر بنانے کی تگ ودو کرتا ہے۔اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کرتا ہے ۔اپنے خوف اور خدشات پر قابو پاتا ہے اور یقںن کی خوبصورت منزل کا مسافر بن جاتا ہے اس کے برعکس ایک ایسا شخص جو اپنی ذات کے ساتھ سچا نہیں خود پسندی کے خول میں مقفل ہے،وہ اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قراردیتا ہے۔اپنا دفاع ہی اُس کا مقصدِ حیات ہوتا ہے۔ اپنے خوف و خدشات کا سچائی سے سامنا کر کے حل ڈھونڈنے کی بجائے اُن سے دور بھاگتا ہے۔ایسا شخص کامیاب نہیں ہو سکتا۔
جو شخص خود کے ساتھ سچا ہو آپ اس کی دلکش مسکراہٹ کو محسوس کریں گے۔ اس کا سکونِ قلب اس کی باتوں سے عیاں ہو گا۔اس کی آنکھوں کی چمک بتائے گی کہ اس کے اندر اطمینان کا دریا موجزن ہے۔لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت ہو گی کیونکہ اس کے لوگوں کے ساتھ بھی معاملات کی عمارت کو سچائی کی بنیاد ملی تھی اور سچائی کی خوبصورت بنیاد پر استوار تعلق مضبوط کیونکر نہ ہو؟
مختصر یہ کہ انسان کی باطن کی خوبصورتی اُس کے ظاہر میں جھلکنا شروع ہو جاتی ہے یہ خود سے سچائی جیسی کامیاب لوگوں کی صفت سفرِ زندگی میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہے اور انسان کو رشکِ فلک بنا دیتی ہے۔اس لیے کامیاب لوگوں کی عادتیں اپنائیے اور کامیاب ہو جائیے۔کامیابی بانہیں پھیلائے آپ کی منتظر ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

Comments are closed.