غنچے بنے مہکتے پھول

 

ثناء سحر(اوچ شریف)

 

بچے قوم کی امانت ھوتے ہیں۔ان غنچوں کی حفاظت اور نشونما کی ذمہ داری نہ صرف والدین اور اساتذہ بلکہ قوم کے ہر فرد پرعائد ھوتی ھے۔ آج کے یہ ننھے شگوفے کل کے ذمہ دار شہری بنیں گے۔ اس لیے پھول بننے تک ان کلیوں کی حفاظت ایک فرض شناس باغبان کی طرح کرنا ھوتی ھے

بچے کی اولین درسگاہ ماں کی آغوش ھوتی ہے اور پہلی تربیت گاہ اُس کا گھر ۔ تو اگر والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے ہاں قابل ‘ذہین اور نیک اولاد ہو تو سب سے پہلے والدین کو اپنی عادتوں او طور طریقوں پر غور کرنا چاھیئے۔ کیونکہ بچہ ماں باپ کی خوبیوں اور برائیوں کا ہی مجسمہ ہوتا ھے اور جس طرح شکل و صورت اور رنگ روپ میں بچے اپنے والدین سے ملتے ہیں بلکل اسی طرح ان کی عادتیں بھی کافی حد تک والدین سے ملتی ہیں۔ بے شک وہ اس دنیا میں آکر ایک منفرد شخصیت کا حامل بنتا ھے مگر اس کی فطرت تو والدین ہی بناتے ہیں۔اس لیے والدین کو اچھے اور مہذب انداز میں اپنی نسل کو پروان چڑھانا چاھیے ۔گھر میں بچوں کے سامنے لڑائ جگھڑے’چیخنا چلانا اور گالی گلوچ جیسی نازیبا حرکا ت سے اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ بچےاپنے اردگرد کے ماحول سے جو تاثر لیتے ہیں وہ سب ان کی عادتوں میں شامل ہوتا رہتا ھے۔ ایک پروفیسر کے بیان کے مطابق:

"بالغ ھونے پر نناوے فی صد کام عادات کا نتیجہ ھوتے ہیں”

تشکیل عادت کے دو طریقے ہوسکتے ہیں والدین اور اساتذہ دونوں کو ان طریقوں کا علم ھونا چاہیے۔پہلا طریقہ یہ ھے کہ بچے کی خوشی وغمی اور تکالیف کے احساسات کو پرکھا جائے برے کام پر سزا دی جائے اور اچھے کاموں پر ان کو شاباشِ دی جائے اور انعام سے نوازا جائے تاکہ ان میں اچھے اور صالح عمل کرنے کا جزبہ بیدار ہوسکے دوسرا طریقہ اپنے بچوں کی ہر سرگرمی پر نظر رکھیں اور انہیں دین اسلام سے مکمل آگاہی دیں آپکی پہلی ترجیح آپکے بچے کا سچا مسلمان ہونا ھیں تاکہ وہ کسی بری چیز کی طرف نہ بھٹکیں بچوں کی بنیادی اور فطری ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ بے شک بچوں کی پرورش وتربیت کی بھاری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی عمارت کی بنیاد روز اول سے ہی غلط اور ٹیڑھی رکھی جائے گی تو اس کی عمارت بعد میں

"خواہ کتنی ہی عالی شان ‘جلیل القدر اور حسن کامل کا مجسمہ ہو۔لیکن وہ روز اوّل کی خامی سدا اس عمارت کےُ حسن کے ماند کرتی رہے گی۔اور ہر دیکھنے والے کے حسن و جمال کو کھٹکتی رہے گی”

اکثر دیکھا گیا ھے کہ: "اعلی سے اعلیٰ تعلیم پانے اور صاف ستھرا ماحول میسر آنے کے باوجود بہت سے لوگ پست حوصلہ ‘بزدل’ حیوانی خصلت اور بری عادات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اکثر دیکھنے میں آتا ھے کہ کچھ والدین بچوں کو کسی بری عادت سے بچانے کے لیے سزا دیتے ہے تو یہ یاد رہے کہ یہ سزا غیر منصفانہ یا بے مقصد نہیں ہونا چاہیئے۔اگر ہر بار کسی غلطی کی پاداش میں مار پیٹ اور طنز و تشنیع سے بچہ کی نظر میں ان سب باتوں کی اہمیت یکسر ختم ہوجاتی ہے اور اسی طرح وہ خوف وڈر ‘وھم ‘ضد ‘ہٹ دھرمی بزدلی اور کند ذھنی کا شکار ھوجاتے ہیں۔ اور بھی بہت سی سماجی برائیاں جیسے جھوٹ فریب اور بری صحبت کا شکار جاتےہیں۔ اسی لیے ھمیں ان نازک اندام شگوفوں کی آبیاری کرنی ہیں اور یہ بند کلیاں ِِکھل کر تازہ اور پاکیزہ پھول کی طرح مہکےاور پوری قوم کو اپنی حسن اخلاق کی خوشبو سے مستفیض کر سکیں۔

اب میں قوم کے معماروں سے عرض کرنا چاھتی ھوں کہ بچہ بےحد حساس اور خوددار ہوتا ھے اور بلاوجہ مار پیٹ سے بچہ ڈھیٹ سرکش اور باغی بن جاتا ھے۔ بچے کے کردار کا گہرا مطالعہ کرنا بہت ضروری ھے۔چونکہ استاد بچہ کی ذہنی اخلاقی’معاشرتی’روحانی اور جسمانی تربیت کا ذمہ دار ھوتا ھے ۔جب تک استاد کے دل میں بچوں کے لیے محبت و ایثار کا مادہ نہ ہوگا اس کا اپنا دل حساس اور قومی محبت سے لبریزنہ ھوگا وہ ہر گز بچوں کی صحیح تربیت نہ کر سکے گا اور صرف پیشہ ور استاد ہی کہلائے گا۔

بچوں کو پڑھانے کے لیے انہیں انفرادی طور پر سمجھنا ضروری ہوتا ھے ایک ہی اصول سب پر لاگو نہں کیا جاسکتا اور نہ ہی جانوروں کی طرح سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا سکتا ہے۔ بچوں کی فطرت کو سمجھنے کیا پورے خلوص سے محنت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ھے کہ ہماری تعلیم کا معیار پست ھوتا جارہا ھے اور بچے زیادہ سے زیادہ تعلیم کی دوڑ میں تو آگے جا رہے ہیں ڈگریوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ مگر ان کی کردار سازی نہیں ھورہی’ انکے اخلاقی معیار کی دیواریں گرتی جارہی ہیں۔

حالانکہ تعلیم و تربیت کا اہم مقصد اخلاق کو بلند کرنا بھی ھے جب تک ایک استاد کا اخلاقی معیار بلند نہ ھوگا اس کا اپنا کردار پختہ نہ ہوگا وہ اپنے شاگردوں میں یہ روح کیسے پھونک سکے گا۔اگر ایسا ھوتا رہا تو یہ غنچے پھو ل بن جانے کے بعد بھی اپنی حقیقی خوشبو سےمحروم رہیں گے۔

یہ بھولے بھالے پیارے بچے’ یہ نو بہار شگوفے ہر دل کی ٹھنڈ ک’ اور ہر آنکھ کا ستارے ھیں۔تمام ایسے اساتذہ اور والدین سے التماس ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کا زھر ان معصوم جانوں پر مت انڈیلیں۔ اور اپنے چڑ چڑے پن کی اصلاح کریں اور معصوم شگوفوں کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کریں تاکہ بغیر کسی خوف اور خطرے کے وہ اپنی ہر مشکل آپکے سامنے رکھیں اور ھم اپنی قوم کے قیمتی سرمایہ کی حفاظت کر سکے۔ کیونکہ یہی شگوفے ایک دن پھول بن کر مہکیں گے۔ رب کریم ہماری قوم کے قیمتی اثاثے کو سب بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں ۔ آمین

جزاک اللہ

Comments are closed.