"گناہ ہونے پر احساس”

از قلم:رابعہ
ہم انسان خطاؤں کا پتلا ہیں۔گناہ ہو جاتے ہیں مگر مومن وه ہے جو اپنا گناہ مان لے اور اللّه سے معافی مانگ لے۔ گناہ ہونے پر احساس بھی اسے ہوتا ہے جو اللّه کے قریب ہو۔جو مومن ہو،منافق کو تو گناہ گناہ لگتا ہی نہیں۔
اگر کسی مومن سے کوئی گناہ سرزد ہو جاۓ تو اس پر خوف کا عالم چھا جاتا ہے،اس کا دل اور روح كانپتی ہے،کہ میں نے یہ کیا کر دیا،میں اللّه کے حکم کے خلاف گیا۔روتا ہے ندامت کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔اسے لگ رہا ہوتا ہے جیسے وه کسی پہاڑ کے نیچے دب گیا ہو۔اسے لگتا ہے جیسے وه زمین میں دھنسا جا رہا ہو۔مومن ڈرتا ہے گناہوں سے، مجھ سے گناہ کیسے ہو گیا پھر وه اللّه کی طرف دوڑتا ہے،روتا ہے گڑگڑاتا ہے،ہاتھ جوڑتا ہے معافیاں مانگتا ہے،اس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہہ رہے ہوتے ہیں۔وه کہتا ہے میرے اللّه مجھے معاف کر دے،مجھ سے گناہ ہو گیا،میں خطاکار ہوں، بدکار ہوں، سیاہ کار ہوں،پر جیسا بھی ہوں میرے اللّه صرف تیرا ہوں صرف تیرا،میرے اللّه تو بس مجھے معاف کر دے۔
میں کیسے مناؤں تجھے میرے اللّه مجھے معاف کر دے۔مومن گناہ کرنے کے بعد اس سوچ میں گم ہو جاتا ہے یہ مجھ سے کیا ہو گیا میں کیا کر بیٹھا اللّه کے حکم کی خلاف ورزی کی میں نے یا اللّه معاف کر دے۔رو رو کر اپنے رب کو مناتا ہے اور آئندہ ایسا گناہ نا کرنے کا عظم (پکا)ارادہ کرتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف منافق اسے گناہ کے بعد احساس تک نہیں ہوتا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔وہ گناہ کو مکھی کی مانند سمجھتا ہے جو اس کے بدن پر بیٹھ جاۓ تو اسے ہاتھ سے پل میں اڑا دیتا ہے۔اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وه دن میں کتنے گناہ کر بیٹھا ہے۔گناہ پر گناہ کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔گناہ کرنے کی وجہ سے منافق کا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔اسے گناہوں میں لذت آنے لگتی ہے۔اسی لذت میں آ کر وه گناہ پر گناہ کرتا رہتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے!
گناه اور نا انصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو”(آیت نمبر 39)
اب ہمیں اپنا حساب خود کرنا ہے۔اس سے پہلے کے ہمارا حساب ہو۔اپنا حساب خود کریں اور دیکھیں آپ منافق ہیں یا مومن؟کیا گناہ کرنے سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے؟کیا گناہ کرنے کے بعد دل آپ کو ملامت کرتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟
Comments are closed.