انسان کو انسان کی تلاش

فتح محمد ندوی
قطرے سے گہر بننا آسان ہے تاہم آدمی سے انسان بننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا قطرے سے گہر بننا آسان ہے۔آج کا انسان ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ لیکن وہ ابھی تک ایک اچھا انسان نہیں بن سکا۔بلکہ اس کے اندر ہر دن حیوانیت اور شیطانیت کی خونخوار یاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ اور سبب سے اس نے انسانوں کو انسان سمجھنا تقریباً بند کردیا بلکہ اس کا آپس میں انسانوں سے وہی رشتہ ہوگیا جو درندوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔کبھی وہ رنگ نسل علاقہ اور مذہب کے نام پر لڑتا ہے کبھی اپنی انا کی تسکین کی خاطر وہ ظلم کا بازار گرم رکھتا ہے۔ کبھی وہ طاقت کے نشے میں زور آزمائی کرتا ہے۔ غرض عالم گیر محبت کا چراغ اس کے دل سے بجھ گیا۔ اور مکمل طور سے اس بات کو بھول گیا بلکہ انسانوں کی شناخت اور پہنچان ہی اس کے دل سے نکل چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے ہم جنگل کے باسی ہیں اور تہذیب انسانیت سے ہمارا ہر قسم کا رشتہ ختم ہو چکا ہے۔ غالب نے کہا تھا۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
قوموں پر ایک وقت وہ آتا ہے جب وہ موت کا کڑوا جام پینے میں کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتی بلکہ ان کے لیے موت زندگی سے زیادہ عزیز تر ہوجاتی ہے۔مگر قوموں پر یہ برے لمحات اس وقت آتے ہیں اور وہ موت کو زندگی پر ترجیح اس وقت دینا شروع کر دیتی ہیں جب ظلم اور نا انصافی عام شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جب انسان کا انسان سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب انسان ایک دوسرے انسان کو غلام اور اپنے ما تحت بنانے کے لیے خود حیوان بن جاتا ہے۔پھر وہ مہذب انسان نہ صرف غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینک تا ہے بلکہ اس کو اس سرزمین سے اس قدر نفرت بھی ہو جاتی ہے کہ وہ اس سر زمین سے نکل بھاگنا چاہتا ہے۔ جہاں اس کو دبایا اور ستایا جاتا ہے۔مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے اپنی اس مٹی میں جس میں ان کا جنم ہوا تھا دفن ہو نے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اور یہ فرمایا تھا کہ اس ملک میں دفن ہو نا ناپسند کرتا ہوں جہاں انگریزوں نے اپنے زور و ستم سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔
اس وقت ہمارے ملک ہندوستان کے ۔ خصوصاً حال ہی میں ہونے والے تری پورہ میں انسانیت سوز فسادات کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ یہ فساد اس ستر سال کے فسادات کا تسلسل ہے۔ جو اس ملک میں ہر دس سال کے بعد منظم پلاننگ کے تحت کرائے جاتے رہیں ہیں۔2002 میں گجرات میں ہوئی نسل کشی کے بعد سخت گیر عناصر اس فراق میں تھے کہ کوئی بڑا فرقہ وارانہ تشدد انجام دیا جائے۔اگرچہ اس مدت میں مختلف علاقوں اور شہروں میں فسادیوں نے دنگیں بھڑکائے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں پر ستم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم نفرت کے پجاری کسی بڑے خون خرابے کی جستجو میں تھے۔ جو تری پورہ میں آخر انجام دے ہی دیا گیا۔ جس میں انسانوں کی شکل میں بھیڑ یوں نے اپنی پیاس اپنے ہی ہم جنس انسانوں کے خون سے بجھائی۔ خدا ان سے ضرور انتقام لے گا۔
اس بھیانک فساد کے بعد کئی اہم خطرناک پہلو سامنے آ ئے ایک تری پورہ میں ہندو تنظیموں کی طرف سے جلوس نکالا یا گیا۔ جس میں انتہائی اشتعال انگیز نارے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کےلیے لگائے گئے۔لیکن نفرت اور تعصب کی ان گرم بازای کرنے والوں پر کوئی کاروائی سیاسی بازیگروں کی کٹھ پتلی پولیس انتظامیہ کی طرف سے نہیں ہوئی۔بلکہ مکمل سرپرستی حاصل رہی۔ پھراس کے رد عمل میں علی گڑھ میں جو احتجاج ہوا وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑا خطرناک تھا۔ کیونکہ اس کی شکل اور پوزیشن دفاعی تھی۔ان دونوں احتجاجی پروگراموں کو ملک کے لیے میں مناسب نہیں سمجھتا۔کیونکہ یہ وہی سنگین صورت حال ہے جو ملک میں پہلے بھی تقسیم کا سبب بنی۔
افراتفری کے اس سنگین ماحول اور فضا میں اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کو انسان بنانے کی محنت کی جائے۔ اس کویہ سکھایا اور سمجھا یا جائے کہ خدا کی مخلوق کے ساتھ کیسے زندگی گزارنی ہے اور کیسے انسانی اقدار کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ورنہ نفرت اور تعصب کی یہ گھٹائیں اور شعلے آج ہمارے گھروں کو جلارہے ہیں۔تو ہو سکتا ہے کل ان کی چپیٹ میں آپ کے آشیانے بھی آجائیں۔
27 ربیع الاول مطابق3 نومبر 2021ء
Comments are closed.