اور پھر ادبی دنیا کا ایک روشن چراغ بجھ گیا!مثالی معلم،محقق، مورّخ، ادیب و شاعر: ڈاکٹر الیاس وسیمؔ صدیقی

مالیگاؤں اردو سٹی سے انصاری احسان الرحیم کی خاص پیشکش
محترم ”جناب الیاس وسیمؔ صدیقی صاحب“ کے حوالوں سے ہمارا شہر جانا جا تا ہے۔ انھوں نے تقریباً چار دہائیوں تک خاک کو گوہر میں تبدیل کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ان کا تدریسی سلسلہ ۵۶۹۱ء میونسپل پرائمری اسکو ل کے مدرس کی حیثیت سے شروع ہواآگے چل کر ۶۱/جون ۹۶۹۱کو مالیگاؤں کے مشہور و معروف تعلیمی ادارے جمہور ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں ان کا تقرر معاون معلم کے طور پر ہوا۔ ۴۸۹۱ء سے ۹۹۹۱ء میں بہ حیثیت سپر وائزرکام کرنے کے بعد انھیں ۰۰۰۲ء میں اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ پرفائز کیا گیااو ر ان کی تعلیم و تدریس کا یہ سلسلہ ۸۲/ فروری ۳۰۰۲ء میں ان کی سبکدوشی کے ساتھ ختم ہوا۔
ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب کی پیدائش یکم مارچ ۵۴۹۱ء بروزجمعرات کو ریاست مہارشٹر کے مالیگاؤں ضلع ناسک میں ہوئی اور بروز منگل ۲/ نومبر۱۲۰۲ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والدکا نام محمد حنیف اور والدہ کا نام زہرہ تھا۔ ابتداء سے ہی سے انھیں تعلیم سے شغف حاصل رہا۔ انھوں نے مالیگاؤں ہائی اسکول سے ایس ایس سی (میٹرک) اور پونے یونیو رسٹی سے بی اے کیا۔ اسی طرح بابا صاحب امبیڈ کر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد سے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری پر پونے یونیورسٹی سے تفویض کی گئی۔ اس سے قبل وہ ایل ایل بی لاء کالج پونے یونیورسٹی اور ایل ایل ایم، این بی ٹی لاء کالج ناسک پونے یونیورسٹی سے کر چکے تھے۔ موصوف کو شاستریہ سنگیت مدھیما اول اکھل بھارتیہ گاندھر و مہاودیا لیہ میرج سے حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب کی تعلیمی اسناد دیکھ کرمجھے رابند رناتھ ٹیگور کا قول یاد آگیا ”ایک اچھا استاد وہ ہے جو طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی علم کی جستو جو میں ہر لمحہ لگا رہے“ بزرگوں سے سنا ہے کوئی استاداس وقت تک کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود بہتر طالب علم نہیں بن جا تا۔خاکسار بھی موصوف کا طالب علم رہا ہے۔ موصوف ایک مشفق استاد کے ساتھ اصول پسند شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھوں نے تدریسی فرائض نہایت ہی ایماندارنہ طریقے سے انجام دیئے۔ جو چیز انھیں دوسرے اساتذہ سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا ڈسپلین تھا۔ سخت سردی ہو یا برسات موصوف حمد سے پہلے جمہور ہائی اسکول کے داخلی دروازے پر ایک لمبی باریک چھڑی لے کر طلبہ کے استقبال کیلئے کھڑے رہا کرتے تھے۔ بہ حیثیت سپر وائزر و اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر انھوں نے اسکول کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔
اسی دوران تعلیم کے ساتھ ساتھ کامیاب ثقافتی تقاریب و پرجوش اسپورٹس ویک کے سبب جمہور ہائی اسکول کا وقار بلند ہوا۔ موصوف کے تحریر کردہ استقبالیہ گیت، حب الوطنی گیت موسیقی کے تمام تر آلات کے ساتھ مترنم آواز میں پیش کئے جاتے تھے جوان تقاریب کی روح تھے۔ اس کے علاوہ قومی گیتوں، غزل خوانی، ہزل خوانی، تقریری مقابلہ، ڈرامہ کمپٹیشن و دیگر مقابلوں میں اسکول نمایاں کامیابی کا مظاہرہ کرتی رہییہ موصوف کی سخت محنت اور ہیڈ ماسٹر جناب حسن فاروقی سر کے خلوص و رہنمائی کا ثمرہ تھا۔موصوف کے طالب علموں کی ایک وسیع تر فہرست ہے جو اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ان کی تعلیمی خدمات کے عوض انھیں ناسک ضلع پریشد کی جانب سے۰۰۰۲ء میں ”آدرش شکشک ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔
مرحوم ساتھی نہال احمد صاحب سے وابستگی کے زمانے میں سیاسی بصیرت، دور اندیشی و زبان پر عبور کے سبب موصوف ایک کامیاب مقرر بھی کہلائے۔ جنتادل کے سیاسی جلسوں س میں ان کی شعلہ بیانی سے شہر کے سیاسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بہ خوبی واقف ہیں۔ مالیگاؤں کے مشہو رو مؤقر اخبار شامنامہ میں ہر ہفتہ ”جاگ مرے شہر“ عنوان سے سیاسی، سماجی، تعلیمی و ملی موضوعات پرطنز مزاح کے ذریعے اصلاحی مضامین لکھے جنھیں بے حد پسند بھی کیا گیا۔ نیز آگے چل کر ان مضامین کو کتابی شکل میں شائع بھی کیا گیا۔
وہ کامیاب استاد کی طرح شمع کی مانند جلتے رہے اور دوسروں کو روشنی فراہم کرنے کا فرض ادا کرتے رہے۔ زبان کے تئیں فرض شناش بھی رہے۔ اسی لئے ۷۹۹۱ء میں موصوف نے شہر مالیگاؤں میں پہلی بار”فارسی کلاس“ کا اہتمام ۷۰۰۲ء میں کیا۔بحر سے خارج اشعار پڑھنے والوں کی اصلاح کیلئے ”عروض کی کلاس“سٹی زن کیمپس مالیگاؤں میں جاری کر کے انھوں نے نوجوان شعراء و شعر و شاعری سے لگاؤ رکھنے والوں کی بھر پور رہنمائی کی۔بعد ازاں شعر فہمی کی کلاس کے ذریعے اشعار کے لفظوں کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے جہانِ معنیٰ تک کیسے پہنچے اس کا طریقہ بتایا۔
ان کی شخصیت موجود ہ عہد کے اساتذہ کرام کیلئے مشعل راہ ہے کیونکہ انھوں نے اپنے تدریسی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تحقیقی شعبہ میں بھی نمایاں کارکردگی انجام دی۔ انھوں نے ایک انجینئر کے ہمراہ اپنے بیٹوں اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے چند طلباء کی مدد سے راجہ نارو شنکر کے ذریعے تعمیر کئے گئے مالیگاؤں کے زمینی قلعے کی پوری پیمائش کر کے اس کی موجود ہ کیفیت بیان کر کے دستاویزی شکل دے دی۔راجہ نارو شنکر کے عروج و زوال، واقعات و شجرہ تک تلاش کر کے قارئین کے سامنے پیش کیا۔
مالیگاؤں شہر کے ادبی منظر نامہ میں موصوف ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب کا کردارمرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ انھوں نے نہ صرف بے شمار آل انڈیا مشاعروں میں بطور شاعر شرکت کی بلکہ کئی مشاعروں میں نظامت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ بزم زندہ دلان مالیگاؤں کے صدر کی حیثیت سے مزاح نگار ی کے فروغ اور قلمکاروں کی ذہنی و فکر تربیت اوربزم ارباب ذوق کی سرپرستی بھی کی۔نیز اردو زبان و ادب کے تحفظ کیلئے نئے قلمکاروں اور قارئین کی فوج تیارکر کے مثالی کارنامہ انجام دیا۔
مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری،رب اغفروارحم(سفر حج کے تاثرات)، مالیگاؤں کی سیاسی اور سماجی تاریخ، مالیگاؤں کی تاریخ (مراٹھی)، جاگ مرے شہر(مزاحیہ اصلاحی مضامین)، شعر فہمی اور فن شاعری، قندیل حرف(شعری مجموعہ)، ظرافت آمیز (ادبی انشائیے) اور ادبی تبصرات و تعارف یہ نو کتابیں موصوف کے زرخیز تخلیقی ذہن کی زندہ جاوید نشانیاں ہیں۔ اپنی تخلیقات میں انھوں نے مظلوموں کیلئے صدائے حق بلند کی ہے۔سماجی و اخلاقی تنزلی کی درد ناک تصویر پیش کی ہے جو انھیں ایک حساس فنکار کی سند عطا کرتا ہے۔اشعار میں روانی،منفرد اسلوب اور شوکت الفاظ قارئین کو لفظوں کے سحر انگیز حصار میں قید کر دیتا ہے۔مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری اس کتاب پر انھیں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ ۸۰۰۲ء و ۳۱۰۲ء میں تفویض کیا جا چکا ہے۔ان کی تخلیقات پر ملک کے جن ممتاز ناقدین و تبصرہ نگا ران نے اپنی قلم کوجنبش دی ہے۔ ان میں شمس الرحمن فاروقی(الہ آباد)، سلیم شہزاد (مالیگاؤں)، پروفیسر شمیم حنفی (دہلی)، ڈاکٹر محبوب راہی (بارسی ٹاکلی)، ڈاکٹر عطا خورشید (علی گڑھ)، مجتبیٰ حسین (حیدرآباد) اور نورالحسنین (اورنگ آباد) کے نام قابل ذکرہیں۔
وہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سیمینار، کانفرنس، تعلیمی اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔مالیگاؤں کی ادبی نشستوں خصو صاً انجمن محبان ادب و ادارہ نثری ادب میں پہنچ کر اپنے دوٹوک تبصرہ و تنقیدموصوف کا زبان و ادب سے الفت کا بیّن ثبوت ہے۔ نیززندگی کے کھٹے مٹھے تجربات کے ساتھ ادبی، سماجی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی مسائل پر ان کی باریک بین نظریں آج بھی ٹکی رہتی ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی تو قانونی تقاضہ تھا مگر ان میں موجود استادریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک سیکھنے سکھانے کے عمل میں مصروف ہے اور یہ ایک احسن عمل ہے۔

Comments are closed.