جمعہ نامہ:یہ صلح امیں ، صبح یقیں ،فتح مبیں ہے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح دی‘‘۔ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہونے والی اس آیت کا تاریخی تناظر یہ ہے کہ ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ کے دگر گوں حالات اور نبی کریم ﷺ پر حملے کی سازش سے مکہ غزوۂ بدر تک بہت کچھ بدل گیا تھا۔ غزوۂ بدر پر قرآنی تبصرہ ہے : ’’یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکر گزار بنو‘‘۔ نیز فرمایا گیا کہ :’’اور پیغمبرآپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کررہا تھا اور وہ بہترین انتظام کرنے والا ہے‘‘۔ میدانِ بدر میں اہل ایمان کی فیصلہ کن کامیابی کی تفصیل یوں بیان کی گئی کہ :

’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم (اہل ایمان) نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور(اے پیغمبر)آپ نے (سنگریزے)نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکا۔ یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ مومنین کی حوصلہ افزائی کےساتھ مستقبل کی یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ :’’ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے‘‘۔ اس کےبعد فریق مخالف کو یہ نصیحت کی گئی کہ اِن کافروں سے کہہ دو:’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔

غزوۂ بدر کی کامیابی کے بعد مسلمان بڑے اعتماد سےمیدانِ احدمیں اترے کیونکہ ارشادِ قرآنی ہے:’’تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے ‘‘۔ امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل بھی بہت طاقتور تھا مگر ایران کے ذریعہ دونوں کو پسپا کردیا گیا۔غزوہ ٔ احد کا نتیجہ بدر سے مختلف تھا کیونکہ :’’اللہ نے (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پورا کر دیا ابتدا میں اُس کے حکم سے تم ہی اُن کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے ‘‘۔

غزوۂ احد کے فوراًبعد نبی ٔ کریم ﷺ نے کفار کے لشکر کا تعاقب کیا توپلٹنے کا ارادہ ترک کرکےلشکرِ کفارنے بدر میں ملنے کیا وعدہ کیا اور لوٹ گیا مگر نہیں آیا۔ آگے چل کروہ غزوۂ احزاب میں سارے قبائل کو ساتھ لے کر آئے اور ناکام و نامراد ہوکر لوٹے تو اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا جو صلح حدیبیہ یعنی فتحِ مبین پر منتج ہوا ۔ اسرائیل نے بھی پہلے حملے میں کامیابی حاصل کی مگر ایرانی ردعمل کے بعد صلح پر مجبور ہوا۔ صلح حدیبیہ کے فتح مبین ہونے کی حکمت اہل ایمان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اس لیے مدینہ پہنچ کر ایک صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول ﷺ کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔

نبی مکرم ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا’’ یہ بڑی غلط بات کہی گئی ہے ۔ حقیقت میں یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دینےاور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئےتھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے‘‘؟ ایران اور اسرائیل جنگ بندی کے بعد بھی غزہ کی یہ کسک باقی ہے مگر کیا اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم نہیں ٹوٹا۔کیا اسرائیل پر زبردست حملے کے بعد اس نے خود صلح کی گہار نہیں لگائی؟

کیا امریکہ کودیا جانے والا یہ پیغام معمولی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اندر اس کے سارے فوجی اڈے غیر محفوظ ہیں۔امریکی حملوں کا بہانہ بناکر ایران نےجوہری تنصیبات کے معاہدے سے نکل ایٹمی بم بنانے کا راستہ چن لیا ہے۔ اسرائیل کے اندر بمباری نے یہودیوں کے اندر جوعدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے وہ انہیں خوشحالی کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور کردے گا اور یہ غاصب ریاست اندر سے کھوکھلی ہوجائے گی۔ اسی نسبت سے امریکی فوجی اڈے پر ایرانی حملے کو’فتح بشیر‘ کا نام دیا گیا کیونکہ وہ مستقبل میں بڑی کا میابی کا پیش خیمہ ہے۔ صلح حدیبیہ کی طرح یہ جنگ بندی بھی فتح مبین بن کر غزہ میں امن بحالی راہ ہموار کرے گی ۔ اس طرح فلسطین کی آزادی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ ان شا اللہ

Comments are closed.