اسرائیل۔مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ ہے – اب ایک آزاد فلسطین کی ضرورت ہے:ایس ڈی پی آئی

 

نئی دہلی (پریس ریلیز) سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان حال ہی میں ختم ہونے والا 12 روزہ تنازعہ، جو اب جنگ بندی پر ختم ہو چکا ہے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ یہ جنگ بندی جان و مال کے مزید نقصان کو روکنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ہم قطر کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہیں اور اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس جنگ بندی کا احترام کریں اور دیرپا امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔اگرچہ جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، لیکن اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ اسرائیل کی پورے خطے میں جارحیت اور عدم استحکام کی کارروائیوں کی طویل تاریخ علاقائی سا لمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

اس حالیہ تنازع کا آغاز اسرائیل کے ایرانی شہری علاقوں، جوہری مقامات اور میزائل تنصیبات پر پہلے سے کیے گئے حملوں سے ہوا۔ اس نے اسرائیل کے فوجی برتری کے دیرینہ دعوے کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے اسرائیل نے 1948 اور 1967 میں فیصلہ کن جنگوں اور شام، لبنان اور فلسطین میں مسلسل فوجی کارروائیوں کے ذریعے خطے میں غیرمتزلزل تسلط برقرار رکھا ہے۔ ان اقدامات نے بار بار بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، پڑوسی ممالک کی خودمختاری کو پامال کیا ہے، اور شہریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ ان جرائم کے لیے – بشمول غیر قانونی فوجی مداخلت اور شہری آبادی پر منظم جبر – اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیے اور سزا دی جانی چاہیے۔ مزید برآں، اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیاروں کاہونا عالمی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، جس کا مکمل خاتمہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

جنگ نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی چیلنج کیا ہے۔ ایران کے میزائل ردعمل نے ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل مکمل طور پر ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ جدید ترین دفاعی نظام اور جوابی حملوں کے باوجود اسرائیل کو اس تنازعے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سمندری اور زمینی راستے سے شہریوں کے ملک سے فرار ہونے کی اطلاعات اس قوم کی حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں جو اب فوری فتوحات کی عادی نہیں ہے۔ اسرائیل کے غیر چیلنج شدہ تسلط کا افسانہ ختم ہوگیا ہے۔ ایران کی طاقت اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ صرف فوجی طاقت اس علاقائی بحران کو حل نہیں کر سکتی۔ ایران نے ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی مثال قائم کی ہے اور تاریخی سبق سکھایا ہے۔

اس کے باوجود، اس جنگ بندی کو اختتام کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ اس تاریخی بحران کو حل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس کا مرکز فلسطین ہے۔ کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام ظلم و ستم، جبری نقل مکانی اور منظم تشدد کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو اب دو قومی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے اور ایک منصفانہ اور دیرپا حل کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر کام کرنا چاہیے یعنی 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، اسرائیل کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کو فوری طور پر روکنا چاہیے- جیسے کہ غیر قانونی بستیوں کی توسیع، فوجی دراندازی اور شام اور لبنان جیسے پڑوسی ممالک پر فضائی حملے۔ اسے اپنی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں سے پیچھے ہٹنا چاہیے اور اس

نے غزہ اور مغربی کنارے میں بنائے گئے ظلم و جبر کے ڈھانچے کو ختم کرنا چاہیے۔ جارحین کو جوابدہ ٹہراتے ہوئے، بین الاقوامی قانون کو سختی سے نافذ کرتے ہوئے اور بامقصد مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے – اس طویل عرصے سے جاری تنازعہ کا ایک منصفانہ اور دیرپا حل نکالنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اب فیصلہ کن اقدام کرنا چاہئے۔

 

Comments are closed.