عبدالقیوم انصاری کی وراثت : کیا ہم اس کے امین ہیں؟
(ولادت:یکم جولائی1905 وفات :18جنوری1973)

محمد عارف انصاری
رابطہ :9572908382
ای میل :[email protected]
عبدالقیوم انصاری تاریخِ ہند کی اُن نابغہ روزگار شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں کردار ادا کیا اور آزادی کے بعد کمزور و محروم طبقات، خاص طور پر مومن بنکر برادری کی فلاح کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ نہ کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، نہ جاگیردار طبقے سے، بلکہ اپنی خداداد صلاحیت، جذبہ ¿ خدمت اور حق گوئی کی بنیاد پر قومی سیاست کے افق پر ابھرے۔ آج جب ملک کا سیاسی منظرنامہ شدید فرقہ واریت، عدم برداشت، سماجی و معاشی ناانصافی اور طبقاتی بالادستی کا شکار ہے تو انصاری صاحب کی زندگی اور جدوجہد نہ صرف رہنمائی عطا کرتیہے بلکہ ہماری اجتماعی غفلت کا آئینہ بھی ہے۔
مومن برادری کی آج جو حالت ہے بالخصوص تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی پسماندگی کے لحاظ سے وہ انصاری صاحب کے نظریات اور خوابوں کی صریح نفی ہے۔ آزادی سے قبل جب مسلم طبقات مسلم لیگ کے بہکاوے میں آ کر دو قومی نظریے کی حمایت کر رہے تھے عبدالقیوم انصاری نے بھرپور جرأت کے ساتھ اس سوچ کی مخالفت کی اور ایک متحدہ، سیکولر، جمہوری ہندُستان کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ انہوں نے مومن کانفرنس کو محض ایک سماجی تحریک نہیں رہنے دیا بلکہ اسے کانگریس کی بڑی مسلم اتحادی جماعت بنا کر ہندُستانی سیاست میں وہ وزن عطا کیا جو مسلم لیگ کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری تھا۔
مگر افسوس کہ جس انصاری صاحب نے مسلمانوں کی سیاسی، تعلیمی و سماجی شناخت کو جارحانہ انداز میں استوار کیا آج اسی برادری کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں جگہ نہیں ملتی بلکہ مکمل نظراندازی اور شعوری محرومی کا شکار ہے۔ قومی جماعتیں ہوں یا علاقائی، مومن قیادت کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی سیاسی موجودگی کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے مایوسی، بے یقینی اور احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ وہ بصیرت جس کے تحت انصاری صاحب نے محروم طبقات کو بااختیار بنانے کی مخلصانہ کوشش کی تھی آج مفاد پرستی، فرقہ واریت اور ذات پات کی سیاست کی نذر ہو چکی ہے۔
عبدالقیوم انصاری نے صرف سیاست میں نہیں بلکہ تعلیم، دستکاری، فلاحِ عام، تربیت اور خود کفالت کے میدان میں بھی تاریخی خدمات انجام دیں۔ ان کی مخلصانہ کوششوں سے نہ صرف مومن برادری کے لیے تعلیم کے دروازے کھلے بلکہ بی ایم سی مکتب جیسے اداروں کی تشکیل نے ہزاروں غریب و محنت کش طلبہ کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ مگر آج تعلیم کی جو حالت مومن برادری میں ہے، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی، مہنگی نجی تعلیم، جدید سہولیات کی کمی اور پیشہ ورانہ اداروں تک محدود رسائی نے برادری کے نونہالوں کو ایک بار پھر سماجی و اقتصادی اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔
ایسی صورت حال میں عبدالقیوم انصاری کی تعلیمی بصیرت، عملی حکمتِ عملی اور ان کی تعلیمی تحریک کی تجدید کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ برادری کو ترقی کے نئے مواقع میسر آئیں۔ تعلیم ہی وہ مضبوط فکری بنیاد ہے جو کسی قوم کو پسماندگی سے نکال کر عزت، خوشحالی اور وقار کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور انصاری صاحب اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے انہوں نے تعلیم کو صرف فرد کی ترقی نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی بیداری، خود اعتمادی، ترقی اور شعور کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کا خواب تھا کہ مومن برادری کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو، بااخلاق ہو اور قومی ترقی میں فعال و سرگرم کردار ادا کرے۔
انصاری صاحب کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے دستکاری بالخصوص ہتھ کرگھا صنعت کو فروغ دے کر مومن برادری کی کمزور، غیر منظم اور پسماندہ معیشت کو زندہ رکھنے کی مؤثر، مسلسل اور عملی کوشش کی۔ ان کی قیادت میں متعدد کوآپریٹو سوسائٹیاں قائم ہوئیں جنہوں نے محنت کش بنکر طبقہ کو بیگار، استحصال، غیر یقینی روزگار اور مہاجن کے چنگل سے نجات دلائی۔ مگر آج اس برادری کے پاس نہ کام ہے نہ پونجی ہے نہ بازار اور نہ ہی ریاستی تعاون۔ جدید ٹیکنالوجی، تربیت یافتہ افرادی قوت اور مالی وسائل سے محروم ہے اور حکومت کی جانب سے معاشی تحفظ و مناسب سبسڈی کے فقدان کا مسلسل شکار ہے۔
سماجی انصاف کے علمبردار انصاری صاحب نے ہمیشہ ذات پات نسب پرستی اور اشرافیت کی سیاست کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ ان کا خواب تھا کہ مسلمانوں کے تمام طبقات خواہ وہ کسی بھی برادری سے ہوں ایک مساوی، باوقار، باشعور اور بااختیار شہری کے طور پر جئیں جنہیں ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں اور جو اپنے مذہب و قوم کے سچے نمائندہ ہوں۔ مگر آج کا سچ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے لوگ خود مسلمانوں کے اندر اشراف و غیر اشراف، سید و انصاری، پٹھان و قریشی کا فرق گہرا کر رہے ہیںجو ملت کے اتحاد، ہم آہنگی اور اجتماعی ترقی کے لیے سُمِّ قاتل ہے۔
مومن برادری جو کہ عددی اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی مسلم برادری ہے سیاسی لحاظ سے اس وقت شدید تنہائی اور ناقدری کا شکار ہے۔ انصاری صاحب کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے سیاسی حق کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد نہ کی تو محرومیوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہمیں صرف انتخابی موسم میں سرگرم ہو کر خاموشی اختیار نہیں کرنی بلکہ پورے سال سیاسی بیداری کے عمل سے جڑنا ہوگا۔ قیادت وہی حاصل کرتا ہے جو شعور، حکمت اور مستقل مزاجی کے ساتھ مقام منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ووٹ دینے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم نمائندگی کا حق مانگیں اور خود کو قیادت کے لیے تیار کریں۔
عبدالقیوم انصاری ایک ایسی توانا آواز تھے جو ہمیشہ ملک وملت کے درمیان ہم آہنگی کا پل کا کام انجام دیتی رہی۔ آج ملک جس نازک اورپر آشوب دور سے گزر رہا ہے جہاں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے، ان پر حملے ہو رہے ہیں، ان کی وفاداری پر سوال ائھائے جا ر ہے ہیںاور نفرت کو سیاست کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے ایسے میں انصاری صاحب کا انسان دوست، رواداری اور مذہبی غیر جانبداری پر مبنی نظریہ ایک رہنمائ چراغ بن سکتا ہے۔ انہوں نے قومی ہم آہنگی، ملی اتحاد،سماجی انصاف،مساوات اور آئین کی پاسداری پر جو یقین رکھا وہی راستہ آج ملک کو نفرت اور تباہی سے بچا سکتا ہے۔
ایک مخلص رہنمائ کی جدوجہد کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب ان کی فکر کو عملی شکل دی جائے۔ ہر تاریخی داستان میں ایک ایسا قومی و سماجی منصوبہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی روشنی میں مستقبل کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ انصاری صاحب کے افکار و خیاکات کو نئی نسل تک پہنچانے کی تدابیر کی جائیں۔ تعلیمی نظام، فلاحی میدان اور سیاسی دائرے میں مؤثر موجودگی ناگزیر ہے۔ صرف رائے دہی کافی نہیں، نمائندگی کے لیے منصوبہ بند کوشش ضروری ہے اور قیادت لیے خود کو سنوارنا، تیار کرنا ہوگا۔ پسماندگی کا دیانتدارانہ تجزیہ کر کے عملی حکمتِ عملی اختیار کی جائے تاکہ وقار کے ساتھ آگے بڑھا جا سکے۔
انصاری صاحب نے جس تحریک کو آزادی سے قبل پروان چڑھایا تھاوہ آج بھی ایک بہتر، مساوی اور باعزت مستقبل دے سکتی ہے بشرطیکہ اس کی اسی نہج پر خلوص اور سنجیدگی سے آبیاری کی جائے۔ ان کے نظریات وقتی جذبات یا سیاسی مصلحتوں پر نہیں بلکہ انصاف، برابری اور اجتماعی فلاح و بہبود کے اصولوں پر مبنی تھے۔ آج جب ملت ناانصافی، بے حسی اور الجھن کا سامنا کر رہی ہے تو انصاری صاحب کی سوچ و فکر ایک صحیح راستہ دکھا سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کی عملی جدوجہد کی روشنی میں موجودہ حالات کا مؤثر، دیرپا اور قابلِ عمل حل تلاش کیا جائے جو ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں معاون ہو۔
Comments are closed.