” جہیز ایک لعنت”

ازقلم:-حافظہ اقراء نصیر
(ڈاہرانوالہ)
جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اسباب یا سامان” یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتاہے
آج کے دور میں ایک لڑکی کا نکاح کرنا بہت ہی مشکل کام ہے.آخر ایساکیوں ہے؟کیونکہ ہم نے بےجا رسومات اپنے اوپر مسلط کر لی ہیں.ایسی رسومات جن کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ہندوانہ رسمیں ہیں. جو ہمیں فضول خرچی پر آمادہ کرتی ہیں.حالانکہ غیر اقوام سے مشابہت کی ممانعت بے شمار احادیث میں وارد ہوئی ہے حدیث مبارکہ میں ہے:
"سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت(کم خرچہ اور تکلف نہ)ہو”.
ہمارے ہاں بہت سی ایسی رسومات ہیں جو ہندو معاشرے ہی سے مسلمانوں میں آئی ہیں.ان میں سے ایک جہیزکی رسم بھی ہے.اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
حقیت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
اگر اسلامی تعلیمات کو پرکھا جائے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جو سامان دیاوہ صرف ضروریات کی چیزیں تھیں.ان میں ایک چادر ایک مشکیزہ ایک تکیہ ایک چکی ایک جوڑا اور ایک پیالہ تھا. یہ بھی واضح ہےکہ حضرت علی رضہ اللہ عنہ حضرت فاطمہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی رہتے تھےاور ان کا اپنا کوئی گھر نہ تھا.شادی کے بعد جب انھوں نے گھر اپنا گھر بنایا تو اس میں گھریلو سامان کی ضرورت تھی.یہ بھی واضح ہے کہ جو چیزیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بیٹی کو. دیں وہ ان کے حق مہر کی قیمت سے لی گئ تھیں.
آج ہم نے جہیز دینااس قدرضرورى سمجھ لیا ہےکہ اگرایک باپ کو قرض بھی لینا پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹتا جبکہ دین اسلام میں صرف ضروریات کی چیزیں دینا جائز ہےوہ بهى صرف پيارمحبت ميں جو والدین اپنی بیٹی کو خوشی سے دیتے ہیں نہ کہ کوئی قرض لے کر دیتے ہیں.آج جب کسی کے گھربیٹی پیدا ہوتی ہے تووہ رحمت کے ساتھ زحمت بن جا تی ہےباپ اپنی بیٹی کے جہیز کے با رے میں فکر مند ہو جاتا ہےاور جب وہ اپنی بیٹی کو رخصت کر تا ہے تو ایک غریب قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور وہ اپنی ساری زندگی قرض چھکانے میں گزار دیتا ہے
ماں باپ کا گھر بِکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی نا مراد ہے یہ رسم جہیزبھی
دوسری طرف دیکھا جا ئےتواکثر غریبوں کی بیٹیاں اپنے باپ کے گھر میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں
اوراس کی وجہ صرف اور صرف جہیز ہے
بوڑھی ہوئی غریب کی بیٹی شباب میں
غربت نے رنگ روپ نکھرنے نہیں دیا
غریب باپ اگر اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے تو وہ قرضہ لے کر اپنی بیٹی کو جہیز جیسی لعنت سے نوازتا ہے اور اُسے اُس کے سسرال رخصت کرتا ہے اگر جہیز نہ دیا جائے تو سسرال والوں کےطعنے سننے پڑتے ہیں
دیکھی جو گھر کی غربت تو چپکے سے مر گئی
ایک بیٹی اپنے باپ پہ احسان کرگئی
اکثر لوگ محض دکھاوا کرنے کے لئےزیادہ سے زیادہ جہیز دیتے ہیں تاکہ خاندان میں ان کا نام ہو.اور ان کی بیٹی عزت کے ساتھ اپنے سسرال میں زندگی گزار سکے.اکثر لڑکے والےاپنے بیٹے کا رشتہ وہاں کرتے ہیں جہاں سے ان کو امید ہوں کہ اچھا خاصہ جہیز مل جائیں گا.غریب کے گھراپنے بیٹے کا رشتہ اسی وجہ سے نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی ہمارےگھر کیا لائے گی.غریب لوگوں کی بیٹیوں کے رشتےصرف اورصرف جہیز نہ ہونے کی صورت میں نہیں ہوتے. آج کے دور میں لڑکےوالے لڑکی کے گھر والوں سے فر مائشیں کرتے ہیں کہ وہ اپنے داماد کو کار یا موٹر سائیکل یا پلاٹ دیں.لڑکے والوں نے یہ ایک کاروبار بنا لیا ہے.آج لڑکے والوں نے اپنی خواہشات لڑکی والوں کے اوپر تھوپنا شروع کر دی ہیں.
وراثت میں بیٹی کا حصہ ہوتا ہےآج لڑکی کواسکا وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا لیکن اسے جہیز جیسی لعنت سے ضرور نوازا جاتا ہےحالانکہ بیٹی کو اسکا حصہ دینے کے بارے میں قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے دین اسلام کوچھوڑ کر بے جا رسومات کو اپنا لیا ہے..
ہم لوگ لیے پھرتے ہیں اب تک بھی دلوں میں
فرسودہ رسومات و خیالات کی تصویر
اب یہ والدین پر منحصر ہےکہ وہ اپنی بیٹی کا وراثت میں جو حق ہے وہ اسے شادی سے پہلے دیتے ہیں یا شادی کے موقع پر جہیز کر صورت میں دیتے ہیں یا شادی کے بعد دیتے ہیں اس سلسلے میں شریعت کے اعتبار سے اس پرکوئی قید نہیں ہے.حکومت نے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے قانون تو بنا دیا ہے لیکن قوانین کا فائدہ تب ہی ہو گا جب اس پر عمل درآمد ہو.
بنا فی مانہ ہے لعنت جہیز
غربیوں کو ہےوجہ زحمت جہیز
کرو سادگی اختیار اہل زر
نہ دوتم خلاف شریعت جہیز
فزوں حد سے ہرگزطلب مت کرو
کہ ہومو جب خیرو برکت جہیز
ہمیں چاہیے کہ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کریں اور اس برائی سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئےپوری کو شش کریں.اگر نوجوان لڑکے بھی اس مسلئے کی نوعیت کو سمجھیں تو انہیں چاہیےکہ وہ جہیزلینے سے ہی انکار کر دیں.خواہ لڑکی والے کتنا ہی زور کیوں نہ دیں.اگر سب مل کر کوشش کریں تو جلد یا بدیراس رسم بد کا خاتمہ ہو جائے گا.انشاللّٰہ…
بڑھو آگےبڑھوآگے برائی کو مٹانے کو
صدائےعام دوا اس کام کی سارے زمانے کو
Comments are closed.