اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری

مفتی محمد عبد الحمید قاسمی
تعلیم ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے تعلیم سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تعلیم سے ہی اطاعت حق اور سنت رسول ﷺ کا علم حاصل ہوتا ہے تعلیم ہی انسان کی فضیلت اور شرف کا معیار ہے علم ہی انسان کے کمال و امتیاز کا سبب ہے یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اپنی آمد کے پہلے دن سے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ جس سماج اور معاشرہ میں تشریف لائے تھے وہ زمانۂ جاہلیت اور ایک تاریک دور کہلاتا ہے جس کی نظیر نہ پہلے کھبی تھی اور نہ آگے ہو سکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلا تقاضہ تو یہ تھا کہ کفر و شرک کو مٹانے، فحاشیت، زناکاری، شراب نوشی اور سماجی برائیوں کے خاتمہ یا عورتوں کے مقام و مرتبہ یا پوری انسانیت کو امن و امان کا پیغام سنانے کے لئے غار حرا میں سب سے پہلی وحی نازل ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ فرمایا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام سے پڑھئے جو تمام کائنات کا خالق ہے (سورہ علق: ۱)یعنی سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ قیامت تک آنے والی انسانیت کو جس بات کی دعوت دی گئی وہ "تعلیم ” ہے کیونکہ علم ایسا سر چشمہ ہے جس سے تمام بھلائیاں پھوٹتی ہیں اور تمام برائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے نیز نبی کریم ﷺ نے مکی زندگی میں ہزاروں مسائل اور مصائب کے باوجود "دار ارقم” کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا اور اپنے ساتھیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پہلے دن سے کوشاں رہے، ہجرت کے بعد مدینہ میں گھر کی تعمیر اور دنیوی ضروری سامان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے عبادت گاہ اور دینی مرکز کی حیثیت سے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور پہلی درسگاہ ایک چبوترے کی شکل میں قائم کی جسے صفہ کہا جاتا تھا، نبی کریم ﷺ کا یہ عمل ہمیں بتاتا ہے کہ دنیوی ضروری سامان اکٹھا کرنے سے زیادہ اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم نافع کے لئے دعا فرماتے تھے اور علم نافع کا مطلب یہی ہے کہ جو علم انسان کو دینی اور دنیوی اعتبار سے نفع پہنچائے، اس اصول سے معلوم ہوا کہ عصری علوم بھی کسی نہ کسی طریقہ سے انسان کیلئے نفع بخش ہیں، تعلیم بہرحال فائدہ سے خالی نہیں، تعلیم اگر کسی قوم کے لئے ریڈھ کی ہڈی ہے تو نصاب تعلیم اس کی وہ بنیاد ہے جس پر پوری قوم و ملت اور ملک کے مستقبل کا انحصار ہے جیسا نصاب پڑھایا جائے گا جیسا نظام تعلیم رائج کیا جائے گا ویسے ہی افراد تیار ہوں گے اس لئے تعلیمی نظام خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی بالخصوص مالی اعتبار سے شفافیت کے ساتھ ہونا ضروری ہے ورنہ جیسا نظام ویسے افراد کا مصداق ہوگا،لھذا بچے کے مدرسہ اور اسکول کا انتخاب صحیح کریں، تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے لوگوں کے لئے دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کو فدیہ قرار دیا تھا حالانکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان فاقہ کشی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور ان کو مالی وسائل کی زیادہ ضرورت تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی ضرورت پر تعلیمی ضرورت کو مقدم رکھا، علم ایک بہت بڑی نعمت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا قرآن نے اسی لئے کہا ہے علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے (الزمر : 9) بہرحال موجوہ حالات میں مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انہیں اچھی سی اچھی تعلیم دلائیں اور انھیں قابل بنائیں کہ وہ اپنے ملک اور قوم کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں –
*افسوس کہ* آج والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بے رغبتی اور لا پرواہی برتر ہے ہیں, والدین تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے شادی بیاہ اور غیر ضروری تقریبات میں لاکھوں پیسہ فضول خرچی میں ضائع کررہے ہیں، اپنی آزادی اور سکون کے واسطے چھوٹے چھوٹے بچوں کو قیمتی اسمارٹ فون دلاکر ان کی جسمانی اور روحانی طاقت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنتے ہوئے ان کے مستقبل کو تاریک بنارہے ہیں، تھوڑی سی دولت کے خاطر کم عمر میں بچوں کو تجارت اور کاروبار میں لگا کر ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، والدین اپنی مصروفیتوں میں رہ کر اولاد کے حقوق سے ناواقفیت یا جانتے بوجھتے غیر ذمہ داری والا رویہ اختیار کر کر ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بالکل بے فکر ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ بلوغت سے پہلے ہی بچوں کے مزاج میں بد اخلاقی پیدا ہورہی ہے اور منشیات، سگریٹ ، بیڑی، گھٹکا ، گانجہ اور ڈرگس کے عادی ہوتے جارہے ہیں ، دین کی بنیادی تعلیم نہ ہونے کے سبب مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ فرار ہوکر نہ صرف والدین بلکہ اسلام کا نام بدنام کرتی نظر آ رہی ہیں، الامان و الحفیظ – ملک و ملت کی ترقی اور کامیابی تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے تعلیم کے ذریعہ ہی ایک پاکیزہ معاشرہ کو تیار کیا جاسکتا ہے، تعلیم کے ذریعہ ہی برائیوں کو ختم کرنا آسان ہوتا ہے تعلیم کے ذریعہ ہی عدل و انصاف اور امن و امان کو قائم کیا جاسکتا ہے-
*الغرض* والدین کی ذمہ دای ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے دنیوی زندگی کے آرام و راحت کے سامان و اسباب جمع کرنے سے زیادہ اخروی زندگی کے لئے آرام و راحت کی فکر کریں کیونکہ دنیوی آرام و راحت عارضی اور فانی ہے اور اخروی آرام و راحت دیرپا اور دائمی ہے، والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خوب توجہ دیں، اگر خود سے ممکن نہ ہوتو قرآن مجید کی سورہ نحل آیت 43 "اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو” پر عمل کرتے ہوئے علماء سے ہر مسئلہ پوچھ کر ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کریں یا اپنی اولاد کو کسی مستند اور معتبر عالم دین سے تعلق قائم کرادیں تاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں وہ علماء سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں ، اہم بات یہ ہے کہ بچہ سب سے پہلے اپنے والدین کے اخلاق اور کردار سے متاثر ہوتا ہے اور والدین کی ہر نقل و حرکت کو اپنے دل و دماغ میں نقش کرتا رہتا ہے، نیز تربیت کا آسان اور سہل طریقہ یہی یے کہ بچہ جس وقت کوئی غلطی کرے اس وقت نرم لہجے اور اچھے انداز میں اس کی اصلاح کردیں، مزید یہ والدین بچوں کو جن چیزوں کا حکم دیر ہے ہیں پہلے وہ خود اس پر عمل پیرا ہوں ورنہ وہ حکم اور نصیحت بے سود اور بے فائدہ ہوگی-
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی والدین کو اپنی اولاد کے حقوق ادا کرنے اور تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
Comments are closed.