اہرامِ مصر اور ابو الہول عربی اور اردو شاعری کے آئینے میں

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر عین شمس یونیورسٹی ،قاہرہ۔ مصر
اہرام جو سرزمین مصر پر، دریائے نیل کے مغرب میں، گورنریٹ گیزا ہی میں واقع ہیں، مصر کا ایک عظیم اعجوبہ ہے اور دنیا کے سات عجائبات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ قاہرہ سے چودہ میل کے فاصلے پر وسیع صحرا میں بڑی شان اور مضبوطی سے ایستادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اہرام حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل عالم وجود میں آیا تھا۔ پھر بھی ان صدیوں میں ہزارہا سال کے طوفانوں، آندھیوں، اور زمانے کی گردشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پورے ثبات سے اپنی بنیادی حالت پر قائم ودائم ہے۔
جہاں مشہور اہرام موجود ہیں وہیں ابو الہول یا سفینکس موجود ہے۔ اہرام سے چند گز کے فاصلے پر ایک حیرت انگیز بڑا بت ہے جو صدیوں سے ایستادہ ہے۔ ایک سنگی مجسمہ ہے، انسان نما شیر ببر ہے۔ جس کا سر انسان کا اور جسم شیر کا ہے۔ جسے ایک پہاڑی چٹان کو تراش کر شیر ببر کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس بت کی یہ شکل مصری فرعونوں کے اس شعار کی تصویر ہے کہ انسان میں عقل تو انسانی ہو لیکن قوت شیر کی مانند ہو۔
اہرام اور ابو الہول جو ابھی تک اپنی اصلی حالت پر قائم ہیں، ہزاروں سال سے دھرتی کے سینے پر ایستادہ ہیں۔ دونوں نے آج تک ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دونوں کی خوبصورتی کے باعث دیکھنے والوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ کسی زائر یا سیاح کے ذہن کو الجھا کر رکھتے ہیں، دونوں کا قدیم کمال سنگ تراشی اپنے معراج پر پہنچ چکا تھا۔ زائرین ہی اہرام اور ابو الہول کے معماروں کی غیر معمولی درستگی اور تناسب دیکھ کر مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتے، اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ قدیم مصریوں کے تعمیر کردہ عظیم الشان اہرام اور ابو الہول کے دیکھنے کے لئے روزانہ سیاحوں کی ایک کثیر تعداد آتی ہے۔ یہ جگہ سیاحوں کے لئے اہم ترین بن گئی ہے۔
سیاح اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں جستجو میں رہتے ہیں۔ کن لوگوں نے یہ اہرام بنایا؟! کیوں بنایا؟! اور اس کے وجود کا سبب کیا ہے؟! سنگی یادگاروں کی تعمیر کا مقصد کیا تھا؟! اس کی تعمیر کا راز کیا ہے؟! اس کی تعمیر میں اتنی زبردست مہارت کیسے استعمال کی گئی؟! یہ معمار کون ہے جس نے اس قدر حیرت انگیز عمارتوں کا ڈیزائن کیا؟! یہ اہرام مکمل ٹھوس پتھروں کا بنا ہوا ہے، ان بھاری بھاری پتھروں کے لڑھکانے، دھکیلنے، کھینچنے، گھسٹنے کا عمل کیسے انجام پایا؟! اس قدیم زمانے میں کس قسم کے آلات و اوزار استعمال کئے تھے؟! کس طرح چٹانیں توڑیں؟! مزدوروں کی تعداد کتنی تھی؟!
اہرام کے رازوں کے بارے میں عام قسم کے سیاحوں کے ذہن میں اس طرح بے شمار سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان سنگی تعمیرات کے پوشیدہ اسرار کو تلاش کرتے ہیں۔ اس کی اصلیت اور تاریخ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو ان اہرام کی ساخت وتعمیر جو انتہائی مہارت اور عمدگی سے تیار کئے گئے، جو ہزاروں برسوں سے انسانی ادراک واذہان کے لئے ایک معمہ ہے، یہ اہرام شعراء کی نظر میں کچھ اور تو ہے۔ معمولی زائر عمارت کے سائز اور سنگ تراشی سے زیادہ کچھ نہیں دیکھ پاتا ہے۔ لیکن شاعر کی نظر میں یہ پتھر، ریت اور ڈھانچے صرف صحرا میں کھڑے ہیں تو نہیں۔
اہرام اور ابو الہول کی دیدنی شکل سے ایک تصوراتی شکل میں تبدیل ہوتے ہیں۔ جس میں شاعر تشبیہ، کنایہ، استعارہ، اور تصویر کے واسطے اپنے آپ سے بہت کچھ شامل کرتے ہیں۔ ان کو دیکھتے وقت شاعر کی آنکھ معمولی آنکھ نہیں ہوتی۔
اس بات کی اچھی مثال، اہرام کے بارے شاعروں کے شہنشاہ احمد شوقی اور علامہ اقبال کے اشعار ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم عصر تھے – احمد شوقی اپنے اندلسیہ میں کہتے ہیں:
گویا اہرام مصر ایک دیوار ہے
ازل سے بنایا گیا جو کبھی نہیں ٹوٹتا
اس کے ارد گرد ریت ٹکرا رہے ہیں
گویا کہ یہ اہرام ایک آبی جہاز ہے
جو خود تو غرقیاب ہوگیا
لیکن اس کے نمایاں حصے باقی رہ گئے
یہاں شوقی کے ذہن میں دکھائی دیتی ہے کہ گویا یہ اہرام ایک غرقاب آبی جہاز کی طرح ہے اور جس کے اردگرد گویا کہ ریت موجوں کی طرح ہیں۔
آ کے دیکھیں اقبال کیا کہتے ہیں:
اس دشتِ جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر
اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر
اقبال کے ان اشعار میں تخیل کی آزادی اپنی حد تک کو پہنچ جاتی ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ شوقی اور اقبال اہرام کی عظمت کی تعریف کرتے ہوئے حسی تفصیل میں اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کیا۔ اور ان اہرامات میں بقا اور لافانیت کے تمام مظاہر جمع کئے۔ جو ثقافتی ورثے میں معروف و مشہور ہیں کہ یہ ایک بیش قیمت ورثہ ہیں، ایک ایسا ورثہ جو صدیوں سے پتھروں کی زبان میں اپنی سرفرازی کی سرمدی داستان سنا رہا ہے، جن کی وجہ سے اہل مصر فخر سے کہتے ہیں کہ اہرام مصر آج اپنے تعمیراتی اسلوب میں ایک طلسماتی کیفیت لیے ہوئے ہیں – کون آج اہرامات بنا سکتا ہے؟! کون اس ناقابل یقین حد تک بھاری اہرام کو اپنی جگہ سے ہلا سکتا ہے۔
مصری شاعر بدر شاکر السیاب ابو الہول کے متعلق اپنی نظم (نابینا طوائف) میں افسانوی تخیل بیان کرتے ہیں:
اور طیبہ کا دروازہ، اب بھی
اس پر ابو الہول دہشت کے سائے ڈالتا ہے
اور موت ایک سوال پر ہانپتی ہے
اردو شاعر میراجی بھی اپنی نظم (ابو الہول) میں کہتے ہیں:
بچھا ہے صحرا اور اس میں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے
پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی
نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی
مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے
ابو الہول کی افسانوی علامت ایک تجویز ہے جو خیال، معنی، اور علامتی مفہوم کی نشاندہی کرتی ہے۔ ابو الہول ہمیشہ افسانوی ورثے میں موجود ہوتا ہے کہ جس میں طاقت اور خوف سے لبریز ہستی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں کے سامنے صحرا کا محافظ ہے۔ اس کی نگاہ حملہ آوروں کو دہشت سے مفلوج کر دیتی ہے۔
مصری شاعر احمد شوقی کا قصیدہ (ابو الہول) اور اردو شاعر ضیا جالندھری کی نظم (ابو الہول) میں ابو الہول ایک علامت ہے، اپنی بقا میں زمانے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان دو نظموں کے درمیان بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ شاعر کا تخلیقی تخیل براہ راست حسی حقیقت کو دکھانے سے گریز کرتا ہے۔ اور وہ ابدیت پر غور کرنے کی ترجیح دیتا ہے، جس کی نمائندگی ابو الہول کرتا ہے۔ احمد شوقی کہتے ہیں کہ:
اے ابو الہول! تو ایک طویل عرصے تک زندہ رہا
اپنی جگہ پر اس طرح دبکا بیٹھا ہے
زندگی کے اختتام تک ایسا ہی رہے گا
اے ابو الہول! تو کیوں بقا پسند کرتا ہے
حالانکہ یہ زندگی ہمیں بوریت اور اکتاہٹ کے سوا کچھ نہیں دیتی
ان اشعار میں شوقی ابو الہول کو مخاطب کر رہے ہیں، جو بنا اکتاہٹ کے اپنی زندگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ اور جو علامت بن جاتا ہے۔
ضیا جالندھری کی نظم میں ہم ابو الہول کو خاموشی کے کنویں میں واقع پاتے ہیں:
جہاں ریگ کے خواب گراں سے آج تو جاگ
ہزاروں قافلے آتے رہے گزرتے رہے
کوئی جگا نہ سکا تجھ کو تجھ سے کون کہے
وہ زیست موت ہے جس میں کوئی لگن ہو نہ لاگ
تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ
جو تیرے دیدۂ سنگیں سے دردبن کےبہے
یہ تیری تیرہ شب یبجلیوں کےناز سہے
یوں ہی سلگتیرہے تیرے دل میں زیست کی آگ
مگر نہیں، تو اگر میرا راز داں ہوتا
ترے لبوں پ ہدہک اٹھتی کوئی پیارکی بات
تو آج دہر کے سینے پہ تو کہاں ہوتا
ترے سکوں کوکبھی چھو سکا نہ وقت ک اہات
خود اپنی آگہی میں جل بجھی ہے میری حیات
وگرنہ تیری طرح میں بھی جاوداں ہوتا
ان اشعار میں ضیا جالندھری ابو الہول سے اپنا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ ابو الہول کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ اس زندگی میں اس کی کوئی لگن نہیں، کوئی شوق نہیں ہے۔ جبکہ شاعر زندگی کے مسائل میں غرق ہوتے ہیں۔ یہاں شاعر ابو الہول کی عظمت کی تعریف نہیں کرتے بلکہ وہ زندگی میں اپنی ذات اور خیالات کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر بھی ابو الہول شاعر کے لئے ایک محرک تو ہے جو شاعر کو اپنی خود کی تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ شاعر جو غم اور آنسوؤں کے درمیان جدائی کا درد برداشت کرتے ہیں۔ تاکہ محبت، تنہائی اور موت کے مقابلے میں خود کے تجربے کی نمائندگی کرتی ہے۔ جس کی علامت ابو الہول ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فرعونی آثار قدیمہ ہمیشہ مختلف نظریات اور تصورات کے لئے ایک زرخیز میدان رہے گا۔ یہ ماضی اور حال میں شاعری کی خوبصورتی کی علامت تھا اور رہے گا۔ ماضی اور مستقبل کی طرف تمام توجہ آثار قدیمہ کی روح سے ایک مسلط کردہ حصے سے محروم نہیں رہتا۔
مصر، شاعر اپنے ماضی اور تاریخ سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ اس لئے جو بھی معاصر مصری انسان کو سمجھنا چاہتا ہے، اسے اس انسان کی ابتدائی جڑوں کو تلاش کرنی چاہئیے۔ کیونکہ فرعونی آثار مصری ثقافتی جوہر کے ہر عروج اور جمود سے جڑے ہوئے ہیں۔
اور جیسا کہ مصری شاعر نے اہرام اور ابو الہول کے بارے میں اپنے خيالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ہم بھی دیکھتے ہیں کہ اردو شاعر نے بھی دونوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا- اردو شاعروں کو مصری تہذیب سے غیر معمولی لگاؤ ہے۔ مختلف زبانوں، مختلف زمانوں اور مختلف نسلوں کے باوجود عربی اور اردو شعرا کا شاعرانہ تخیل فرعونی آثار قدیمہ کے حوالے سے تقريبا مطابقت رکھتا ہے۔ کیونکہ قدیم مصری ورثہ تاریخ کے دوران انسانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے سفر میں ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں منتقل ہوتا ہے اس لئے اردو شاعر ایک ثقافتی حوالے رکھتے ہیں۔ وہ اس ثقافت کی علامتی اور معنوی جہتیں اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔
جب ہم اہرام اور ابو الہول کے بارے میں شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فنی تخیل اردو اور عرب شاعر کے پاس یکساں انداز میں ہوتا ہے۔ دونوں کے شعری موضوع میں بہت گہرا تعلق اور مشابہت ہے – اپنے شعر کے ذریعے فکری مسائل میں شریک ہوئے- اردو اور عربی شعرا کے اشعار اس تخیل سے بھرے ہوئے ہیں جو شاعری کی تشکیل اور اس کی ساخت کا ایک اہم جزو ہے۔ جس کے ذریعے شاعر اپنے تجربات، جذبات، اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ بہر حال اگر ہم اردو اور عربی شاعری پر نظر عمیق دوڑائیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ شعر میں تاثیر اور تاثر کے عناصر پوری طرح عیاں ہیں –
اور میں خاتمہ اپنے اس شعر پر کرتا ہوں کہ :
ہیں جیسے مصر کے اہرام پختہ
یہ میرا عزم بھی محکم بہت ہے
Comments are closed.