بے اثر نمازیں

فراز حسین ،بنگہ حیات
کسی دانشور نے کیا خوب لکھا ہے کہ
”عمرے یا حج پہ جانے والے صاحبان کو وہاں سے واپسی کی جلدی اس لئے ہوتی ہے وہ ا پنے وطن میں اپنے احباب سے آکر یہ کہیں کہ ان کا وہاں سے واپس آنے کو دل نہیں کرتا”
اس تحریر کو پڑھ کر ایک بات کا جواب کچھ حد تک حاصل ہوجا تا ہے کہ آج ہماری عبادتیں بے اثر کیوں ہیں۔ہم نماز پڑھتے ہیں،روزے رکھتے ہیں ،ماشااللہ اہتمام ذکرہوتا ہے،قربانیاں بھی ذوق و شوق سے کرتے ہیں لیکن اکثریت میں ان عبادات کا اثر نہیں ہوتا ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام عبادات بےسود ہیں؟کیا ان عبادات کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں؟
نہیں ،ایسا تو نہیں نہیں ایسا تو بالکل بھی نہیں مقصد تخلیق کا سب سے اہم جزو ہی عبادات ہیں قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی کی ذات نے خود فرمایا؛
” اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہیں (اس لیے )بنائے کہ میری بندگی کریں” (الذاریات)
یہ بھی سچ ہے کہ اللہ تعالی کو ہماری عبادتوں تو کی ضرورت نہیں لیکن کچھ عبادتیں اللہ نے ہم پر لازم کر دیں ۔جن میں سر فہرست نماز ہے اور نماز تو وہ عبادت ہے جس کا سوال قیامت کے دن سب سے پہلے کیا جائے گا ۔
مدعا یہ ہے کہ نمازیں بے اثر کیوں ؟ تو اس کا سب سے بڑا سبب منافقت بھری نمازیں ہیں ۔
اگر نماز میں دل میں کینہ وحسد رکھ کر پڑھی جائیں گی تو کیا اثر ہوگا بھلا ان نمازوں کا۔ پھر سمجھ آیا کہ اصل معاملہ دل کا ہے اگر یہ اچھا ہو جائے تو معاملہ الٹ ہی نہ ہو ۔ دل تو وہ عضو جسم ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا تو سارا بدن درست ہوگا اور جہاں یہ بگڑا سارا بدن بگڑ گیا ۔” ( بخاری #52)
معلوم ہوا کہ یہ دل ہے جو برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ تو اس دل کو کیسے پاک رکھا جائے ۔دل کو پاک رکھنے کے لئے نفس کو کنٹرول میں لانا لازم و ملزوم ہے۔ نفسی خواہشات کو کنٹرول اسی وقت کیا جاسکتا ہے ہے جب انسان اللہ کی ذات کے سوا کسی کا طالب نہ ہو ذرا سوچیں کہ آج ہم صرف اللہ اور اس کے رسول کے طالب ہیں ؟کیا ہم صرف اس سے مدد مانگتے ہیں؟
کیا ہم شرک سے بچے ہوئے ہیں؟ نہیں بالکل بھی نہیں آج ہم نفس کے غلام ہیں اور اس کی غلامی میں اتنے محو ہو چکے ہیں اللہ کے حضوربھی منافقت پہ اتر آئے ہیں ۔ کرتے تو ظاہری طور پر ہم اللہ کی عبادت ہیں ہیں مگر ہم ہدایت ٹی وی ڈرامہ اورفلموں میں ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کو ہدایت کا سامان سمجھ کر جہنم کی جانب اپنی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
دکھاوے کی نماز صرف لوگوں کے سامنے نہیں پڑھی جا رہی بلکہ اللہ کے سامنے بھی منافقت بھری نمازیں ادا کی جارہی ہیں کہنے کو جو پانچ وقت کا نمازی ہے لیکن اکثر نماز کے وقت یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ گانا یا فلم ادھر روک(pause (دو میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔
کیا یہ درست ہے اس طرح کیسے ہو سکتا ہے ایک حرام چیز آپ دیکھتے دیکھتے جائیں اور پانچ منٹ کی جلد بازی کی برائے نام نماز پڑھ کر پھر اسی حرام کی جانب واپس لوٹ آئیں۔
عبادات منافقت اس طرح بھی دکھائی جا رہی ہے کہ سارا دن جھوٹ، حسد ،زناکاری( یاد رکھیے زنا صرف شرم گاؤں کا نہیں آنکھوں کا ہاتھوں کانوں سمیت تمام اعضا کا ہے جن میں بدقسمتی سے حصہ سب اپنی استطاعت کے مطابق ڈالنے میں کوتاہی نہیں کرتے )اور نفرت انگیز گفتگو میں گزار دیں گے تو کیا وہ لمحات جن کو ہم نماز کا عالم کہتے ہیں کارآمد ثابت ہوں گے ہرگز بھی نہیں ہم ہرگز علی کی نماز کی جیسی نمازیں ادا نہیں کر رہے جن میں رب تعالیٰ سے براہ راست گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ہم ہرگزوہ نماز نہیں پڑھتے تھے جو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی جب کہ ہم بے حیائی اور بے شرمی لے کر اگر نماز ادا کرتے ہیں ہماری نمازیں بے سرور ہیں نمازوں کی رسم جاری ہے مگر روح غائب ہے۔ جسم تو اللہ کی عبادت کرنے کے لئے کھڑا ہے لیکن ہماری روح اور ہمارا دل و دماغ اس چیز سے عاری ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکے ۔
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اسی موضوع پر فرمایا؛
؎ وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی ہے
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
ہمارے اندر تو کل کا فقدان ہے ۔ہم نےاپنے خالق مخلوق کے بارے میں عجیب تصورات بنا رکھے ہیں کہوہ صرف جگہ دیکھ کر عطا کرتا ہے یہاں تک کہ کچھ لوگ تو کعبہ شریف بھی صرف منت مانگنے کے لیے جاتے ہیں انہیں اللہ تعالی کی خوشنودی کی نہیں بلکہ ان کو اپنے مقاصد اور مطالب کی غرض ہوتی ہے ۔اللہ کی خوشنودی کا کوئی تصور نہیں ۔ہم اپنے مقاصد اور مفادات کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں یہی حال مقدس کتاب قرآن مجید کا ہوتا ہے کہ صرف اپنے کاروبار میں برکت اور نجی معاملات کو درست کرنے کی خاطر چار آیات کو پڑھا جاتا ہے ورنہ سمجھنے کی اور عمل کرنے کی خواہش نہ کوشش ۔اس کے باوجوداللہ پھر بھی ادا کرتے ہیں تو غنیمت جانیے اور کرے بھی کیوں نہ وہ تو بڑا رحیم و کریم ہے ۔لیکن ہم اپنے ایمان کی پختگی پر نظر ثانی کریں تو یہ بات حق اور سچ ہے کہ جو عطا کیا جا رہا ہےہم اس کے قابل نہیں ۔ پانچ وقت کی نماز ،ستائیسویں کے نوافل ، محرم الحرام کے روزے اور حج کی قربانیاں تب تک کارآمد ثابت نہ ہونگی جب تک اپنے دل اور دماغ کو پاک نہ کیا جائے گا۔اللہ سے دعا ہے کہ ہم اپنے تن من دھن سے عشق حقیقی میں مبتلا ہو جائیں اوروہ ہمیں اپنی عبادتوں کو سیدھا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
جزاک اللہ
Comments are closed.