ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 

 

 

حفصہ یوسف سیالکوٹ

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

دنیا میں ہر دن لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں جو کہ اپنی زندگی کے تمام تر مرحلات سے گزر کر اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں اور وقت کہ ساتھ ساتھ ان کے وجود کی تمام تر نشانیاں ختم ہو جاتی ہیں،

پر ان میں سے کچھ لوگ اس دنیا میں آتے ہیں، وہ خود تو اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں، لیکن ان کا نام رہتی دنیا تک رہ جاتا ہے،ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں، وہ اپنے عظيم کارناموں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، صدیوں بعد ایسے لوگ اس دنیا میں آتے ہیں اور تا قیامت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ـ

آج ہم بھی ایک ایسی ہی ہستی کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں جن کی بدولت آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں،جی تو ہم بات کر رہیں ہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی۔

آپ کی پیداٸش سے پہلے آپ کے والد محترم نے خواب دیکھا کہ“لق ودق میدان ہے، ایک سفید کبوتر براق فضا میں چکّر لگا رہا ہے،کبھی اتنا نیچے اترآتا ہے کہ بس اب زمین کی قسمت جاگی اور کبھی ایسی اونچائی پکڑتا ہے کہ تارا بن کر آسمان سے جڑ گیا،ادھر بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، سب کے سب دیوانے ہو رہے ہیں ،مگر وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا، کچھ وقت گزر گیا تو اچانک اس نےغوطہ لگایا اور میری جھولی میں آن گرا، آسمان سے زمین تک ایک قوس بن گئ ـ

جب شیخ نور محمد یہ خواب دیکھ کر اٹھے تو اپنے دل کو اس یقین سے بھرا ہوا پایا کہ خدا انہیں ایک بیٹا عطا کرے گا جو دین اسلام میں بڑا نام پیدا کرے گا”

آپ 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔

شاعر مشرق جب پیدا ہوۓ تو وہ کوٸی سونے کا چمچہ لے کر اس دنیا میں تشریف نہیں لاۓ تھے،وہ بھی عام لوگوں کی طرح اس دنیا میں آۓ ، لیکن فرق یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی عام لوگوں کی طرح نہیں گزاری، وہ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے، ان کی والدہ انہیں پیار سے ”بالی“ کہا کرتی تھی۔

انہوں نےاپنے بیٹے کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی،جب آپ نومولود تھے تو آپ کی والدہ کو وہم ہوگیا کہ آپ کے والد جس افسر کے ہاں کام کرتے ہیں وہ لوگوں سے رشوت لیتا ہے، آپ کی والدہ آپ کو حرام نہیں کھلانا چاہتی تھی،آپ نے اپنے زیور فروخت کر کے ایک بکری خرید لی اور اس بکری سے اپنے بچے کا پیٹ پالا کرتی تھی،اور جب تک انہوں یہ یقین نہ ہوا کہ اقبال کے باپ نے وہ نوکری چھوڑ دی انہوں نے اس کماٸی سے ان کو اک نوالہ بھی نہ کھلایا، وہ چاہتی تھی کہ ان کا بیٹا کوٸی غلط کام نہ کرے، اس لیے بچپن سے ہی ان کو حلال کی تربیت دی گٸی۔

دراصل علامہ اقبال کا پورا نام شیخ محمد اقبال تھا، اقبال تخلص تھا،آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، اقبال کے آباءواجداد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک خانوادہ سے تھا ،جس نے ایک مسلمان بزرگ کی تبلیغ سے متأثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھاـ

شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے اور وہ دینی تعلمیات کو ہی اقبال کےلیے بہتر سجمتے تھے،جب آپ بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد آپ کو محلے کی مسجد کے درس گار مولانا ابو عبداللہ غلام حسن کے پاس لے گے، وہاں سے آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا،

تقریباً ایک سال بعد آپ کو مولانا میر حسن نے دیکھا تو آپ کے والد کے پاس گے اور ان سے کہا اپنے بچے کو صرف اس تعلیم تک محدود مت رکھے، اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے، انہوں نے خواہش کی کہ اقبال کو ان کے سپرد کر دیا جاۓ ،جب ان کا اصرار بڑھ گیا تو اقبال کو ان کہ تربيت میں دےدیا گیا،وہاں اقبال نے اردو ،فارسی اور عربی ادب کا مطالعہ شروع کیا، اسی طرح وقت گزرتا گیا،مولانا نے اسکاچ مشن اسکول میں پڑھانا شروع کیا تو اقبال کو بھی وہاں داخل کروا لیا،

جب وہ میٹرک میں تھے، توایک دن فقیر نے اُن کے گھر کے باہر صدا لگائی’’ اللہ کے نام پر…‘‘اندر سے آواز آئی ’’معاف کرو بابا …‘‘ فقیر ذرا اونچا سنتا تھا، لہٰذا اس نے پھر قدرےاونچی صدا لگائی ’’اللہ کے نام پہ بابا…‘‘ اندرسے ایک لڑکا بہت غصّے میں باہر آیا اورکہا ’’کہا تو ہے، معاف کر بابا اور تُوہے کہ ایک ہی صدا لگائے جا رہا ہے ، جاتا کیوں نہیں ؟‘‘ اندر سے آنےوالا بچّہ اور کوئی نہیں ، محمّد اقبال تھے۔ یہ حرکت اُن کے والد ، شیخ نور محمّد کو اتنی ناگوار گزری کہ اُن کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور بیٹے سے کہا کہ ’’کل قیامت ہوگی۔نبی کریمﷺ کے دربا میں جب ساری اُمّت جمع ہو گی، جس میں نیک ،پرہیزگار، عالِم ،فاضل وغیرہ ہوں گے،اُس وقت یہ مظلوم فقیر وہاں پر تمہاری شکایت لے کر آگیا ،تو میں تمہاری اس حرکت کے بارے میں انہیں کیا جواب دوں گا۔‘‘ والد کی یہ بات سن کر اقبال سر جھکا ئے شرمندگی کے باعث کھڑےرہے،تب والد نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’ میرے لخت ِجگر ! تم اُمّت ِ مسلمہ کے ایک فرد ہو۔ وہ تمام تعلیمات تمہارے سامنے رہنی چاہئیں ،جن کا حکم نبی کریمﷺ نے دیا ہے ۔ تمہیں امیر، غریب، بڑے چھوٹے سب کے لیے نرم گوشہ رکھنا چاہیے،‘‘اور پھر اقبال نے باپ کی نصیحت اور اُن سے کیے گئے وعدے کی پاس داری تا حیات کی، اُس دن کے بعد کبھی کسی فقیر کواپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دیاـ

مئی 1893 میں اقبالؒ نے میٹرک کیا، 1895 میں ایف اے، اور مزید تعلیم کی غرض سے لاہور تشریف لے آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دی۔ اپنے لیے عربی، فلسفہ اور انگریزی کے مضامین منتخب کیے، انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے.

آپ نے بی اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ یہاں پروفیسر ’’ٹی ڈبلیو آرنلڈ‘‘ کا ساتھ میسر آیا جنہوں نے آگے چل کر اقبالؒ کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔مارچ 1899 میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کرلی.

اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی پروان چڑھتا رہا ،لیکن وہ مشاعروں میں جانے کو کم ہی ترجیح دیتے تھے،نومبر 1899 کی ایک شام کچھ بے تکلف دوست (جنہیں اقبالؒ کا ہم جماعت کہا جاسکتا ہے) انہیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں لےگئے،بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ، اپنے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے، سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا،اقبالؒ چونکہ بلکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے طور پر پکارا گیا، غزل پڑھنی شروع کی اور جب اس شعر پر پہنچے کہ

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

 

تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے،بے اختیار ہوکر داد دینے لگے، یہاں سے پھر اقبالؒ کی شہرت کا آغاز بحیثیت شاعر ہوا۔ مشاعروں میں بالاصرار بلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن جماعت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے،اقبالؒ کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے بگڑے کاموں کو آسان کر دیا اور سنوار دیا، کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبالؒ کی شاعری نے

بنیادی کردار ادا کی،اس کے بعد آپ اعلی کے لیے انگلستان چلے گے اور وہاں سے قانون کی ڈگڑی حاصل کی ـ

1930 سے آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

 

 

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

 

 

 

نوجوانوں کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے والے اس شعر کے خالق، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اس طرح کے بہت سے اشعار کہے ہیں جس سے وہ نوجوانوں کے اندر حب الوطنی، اسلامی فکر، جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔

بر صغیر میں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر آپ نے ان کو اپنی شاعری کے ذریعے غفلت کی نید سے بیدار کیا۔

آپ نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کا جزبہ پیدا کیا ان کو آزادی کی اہميت سے آگاہ کیا۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ آپ نے جو الگ وطن کا خواب دیکھا تھا اس کو پورا کرنے میں کوٸی کمی نہ چھوڑی۔ آپ کے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں بہت سے لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ بہت سے لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ۔ اور ان سب کیہ جدوجہد اور انتھک محنتوں کی بدولت 14 اگست 1947 کو پاکستان حاصل ہو گا لیکن یہ مناظر آپکو دیکھنا نصیب نہ ہوئے ۔

آپ 19 اپریل1938 کو اس جہاںِ فانی سے پردہ پوشی فرما گے تھے۔

آپ کی پہلی شادی اسی وقت ان کے والد نے کروا دی تھی جب کہ وہ طالبعلم ہی تھے۔ان کی پہلی بیوی کا نام کریم بی بی تھا ۔ جن کا تعلق گجرات کے ایک اعلی خاندان سے تھا ۔ یہ شادی 4 مئی 1893 کو ہوئی ، مگر کامیاب ثابت نہ ہو سکی ۔ اور 1913 میں معاملہ علیحدگی پر جا کے ختم ہوا ۔ مگر علامہ تا عمر ان کے اخراجات اور نان نفقہ کے ذمہ دار رہے۔

 

اقبال کی دوسری شادی 1910 میں مختار بیگم کے ساتھ ہوئی جو کہ 1924 میں پہلے بچے کی پیدائش کے دوران انتقال فرما گئیں جس کا اقبال کو بہت دکھ تھا، اس کا اظہار انہوں نے ان لفظوں میں بھی کیا کہ ایک ایسی زندگی کی تخلیق کے لئے جس نے چالیس پچاس سال بعد ختم ہو جانا ہوتا ہے کتنی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔

اقبال کی تیسری شادی سردار بیگم کے ساتھ ہوئی جو کہ 1913 میں ہوئی ۔ ان سے شادی کر کے اقبال کو حقیقی معنوں میں پرسکون خانگی زندگی حاصل ہوئی ۔ یہ اقبال کی پسندیدہ بیوی تھیں ،شادی کا یہ دور ان کی زندگی کا پسندیدہ دور کہا جا سکتا ہے ، اسی دور میں اللہ نے ان کو دو اولادوں جاوید اقبال اور منیرہ اقبال سے بھی نوازا ۔

 

اسی دور میں اقبال نے اپنا زیادہ وقت اپنے گھر میں گزارہ اور اپنی طویل نظم اسرار خودی کو مکمل کیا، اسی دور میں سردار بیگم کی کوششوں سے یہ ممکن ہو سکا کہ انہوں نے اپنی رہائش کے لئے جاوید منزل کے نام سے ایک آشیاں بنایا اور 1935 میں اس میں شفٹ ہو گئے ، مگر بدقسمتی سے ان کا اور سردار بیگم کا ساتھ یہیں تک تھا ۔مئی 1935 میں وہ بھی اقبال کا ساتھ چھوڑ کے دائمی ملک عدم کو لبیک کہہ گئیں.

ڈاکٹر سر علّامہ محمّد اقبال کو 20 ویں صدی کے معروف ترین اردو، فارسی، شاعر، مصنّف، قانون دان، سیاست دان، مسلم صوفی اور تحریکِ پاکستان کی ایک اہم ترین شخصیت ہونے کا عزاز حاصل ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوّف اور احیائے امّت ِ اسلام کی طرف رہا۔ علّامہ اقبال کو ’’دَورِ جدید کا صوفی‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ بحیثیت سیاست دان نظریۂ پاکستان کی تشکیل اُن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اسی سبب انہیں پاکستان کا ’’نظریاتی باپ‘‘ قرار دیا گیاکہ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد اور وجہ بنا۔

علامہ اقبال جن کو شاعر مشرق، مفکر پاکستان اور حکیم الامت جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اپنی شاعری ، فلسفے اور سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ ایک عام خانگی زندگی کے حامل تھے ۔

 

1922 میں حکومت برطانیہ نے انہیں سر کا خطاب بھی دیا۔

آپ نے بچوں کے لیے بہت سی نظميں لکھی. آپ نے بانگِ دراز، بالِ جبریل، ضرب کلیم کے علاوہ اور بھی کتابيں لکھی۔

Comments are closed.