قاضی القضاۃ شیخ علی بخش کی عدالت میں ۔

از : مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
بعض شخصیتیں اپنی زندگی میں متنوع خدمات کا ایسا نقش قائم کرجا تی ہیں؛ کہ ان کے وصال کے بعد بھی مدتوں ان کے انفاس کی خوشبو محسوس ہوتی رہتی ہے. زمانے کی تمام ستم ظریفیوں کے باوجود انھیں بھلانا مشکل ہوتا ہے، ایسے اکابر در حقیقت ” ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما” کا مصداق ہوتے ہیں؛
ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں قاضی القضاۃ شیخ علی بخش بھی شامل ہیں… جن کا مولد ومدفن اور جائے عمل تیگھڑا کا علاقہ تھا. تیگھڑا بیگوسرائے ضلع کا سب ڈویژن اور اسمبلی حلقہ ہے . عہد مغلیہ میں یہ شہر پورے علاقے کا مرکزی مقام تھا.. انگریز کے عہد حکم رانی میں بھی اس کی مرکزیت برقرار رہی.. ریلوے اسٹیشن، رجسٹری آفس اور کورٹ برٹش راج کے باقیات میں شامل ہیں… تیگھڑا شہر کا ایک محلہ ہے دانیال پور، یہاں کی تاریخی مسجد خاص اہمیت رکھتی ہے. اس مسجد کا نام قاضی مسجد ہے.یہ مسجد مغلیہ طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے . ایک زمانے میں اس محلہ کا نام بھی حضرت قاضی شیخ علی بخش کی نسبت سے قاضی محلہ ہوا کرتا تھا . بتایا جاتا ہے کہ اسی مسجد کے صحن میں قاضی القضاۃ شیخ علی بخش کی عدالت لگتی تھی.. بلکہ ان کے فیصلوں کی تنفیذ کے لیے جلاد ودیگر عدالتی عملہ بھی وہاں موجود رہا کرتے تھے، جو قاضی علی بخش کے شریعت کی روشنی میں دیئے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہناتے تھے.. قاضی علی بخش مغلیہ سلطنت کی طرف سے اس پورے علاقے کے قاضی القضاۃ تھے، ان کے اجداد شیراز ہند جونپور یوپی سے یہاں تشریف لائے تھے۔ جب انھیں مغلیہ عہد میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز کیا گیاتھا ۔.. اپنے اجداد کی روایت کے مطابق شیخ علی بخش بھی قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوئے… آپ کا یہ دارالقضاء اتنے اعلیٰ درجے کا تھا کہ یہاں مجرموں کو سنگین سزائیں دی جاتی تھیں. جامع مسجد سے مغرب کی جانب تولیہ غار کے کنارے ایک خطے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پھانسی کی سزا بھی دی جاتی تھی.
مسجد میں جناب وصی مختار صاحب کا تحریر کردہ قطعہ تاریخ کا ایک کتبہ ہے، جس سے مسجد کی سن تاریخ کا علم ہوتا ہے
ساختہ مسجد۔ بفرط خلوص
شیخ علی بخش، قاضیِ دیندار
ہاتف غیب گفت تاریخش
اے مسلماں بیا دوگانہ گزار
اس کتبہ کی آخری عبارت ” اے مسلماں بیا دو گانہ گذار” سے اس مسجد کی تعمیر کا سن نکلتا ہے.. جوکہ بارہ سو ترپن ہے..
قاضی شیخ علی بخش قاضی امداد علی کے صاحبزادے تھے. آپ کی شادی مولانا سید شاہ نصیر الدین پھلواری شریف کی صاحبزادی بی بی حبیبہ خاتون عرف حبّہ سے ہوئی تھی. مولانا سید شاہ نصیر الدین علیہ الرحمہ حضرت تاج العارفین پیر مجیب رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ مجیبیہ کے پڑپوتے حضرت مولانا شاہ ظہور الحق کے صاحبزادے تھے. قاضی صاحب مرحوم کی بچیوں کے رشتے اس زمانے کے روساء کے خاندانوں میں ہوئے .. ایک صاحب زادی سیدہ شعیر النساء کی شادی سید محمد یسین رئيس اعظم ستملپور اسٹیٹ سے ہوئی. دوسری بچی سیدہ عزیز النساء کا رشتہ رئيس اعظم پیمبر پور اسٹیٹ سے جب کہ تیسری بچی کا رشتہ سید احمد رئيس میناپور سے ہوا.. سید احمد کے صاحبزادگان ہیں. سید مقصود، سید مرضی، سید اسماعیل سید اسحاق…
قاضی سید علی بخش ایک ولی کامل اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.. صاحب نسبت اور صاحب سجادہ بھی تھے.. کہا جاتا ہے کہ آپ کے مریدوں میں انسان کے ساتھ جنات بھی شامل تھے، چوں کہ جنات اکثر سانپ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں؛ اس لیے آپ نے اپنے اہل وعیال اور اہل تعلق کو وصیت کی تھی کہ کوئی سانپ کو نہ مارے.. انشاءاللہ وہ سانپ کے گزند سے محفوظ رہیں گے… چنانچہ تاریخ ہے کہ ان کے خانوادے کے لوگ ہمیشہ سانپ کے گزند سے محفوظ رہے…
اہل ایمان مرد حضرات کے ساتھ خواتین بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھیں…
ان میں سب سے مشہور صغری وقف اسٹیٹ بہار شریف کی بانی بی بی صغری ہیں.. جن کا قائم کردہ وقف اسٹیٹ ریاست بہار کا غالباً سب سے بڑا اور فعال وقف اسٹیٹ ہے.. اس کے تحت کئی عدد دینی وعصری تعلیمی ورفاہی ادارے چل رہے ہیں.. بی بی صغری چونکہ لا ولد تھیں اس لیے اپنے مرشد حضرت مولانا قاضی شیخ علی بخش کے مشورے اور ان کی خواہش کے احترام میں انھوں اتنی بڑی پراپرٹی کو فی سبیل اللہ وقف کردیا .
آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ حبیبہ خاتون عرف حبّہ کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دلوایا…انھوں نے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے قیام کے موقع پر اس کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کافی مالی تعاون کیا.. ایک روایت کے مطابق اخیر عمر میں اس کی تعمیر کی نگرانی کے سلسلے میں حبہ خاتون نے مکہ مکرمہ کا سفر کیا اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا. سیدہ حبیبہ خاتون کے اسم گرامی کا کتبہ مدرسہ صولتیہ کی قدیم عمارت میں ثبت ہوا کرتا تھا…
قاضی شیخ علی بخش کا تذکرہ مورخ بہار بہاری لال فطرت نے اپنی مایہ ناز کتاب "آئینہ ترہت” حصہ چہارم میں کیفیت روسائے وہنرمندان ترہت میں یوں کیا ہے:
قاضی علی بخش ولد قاضی امداد علی ساکن تیگھڑا پرگنہ ملکی.
مرد شریف ونجیب وذی عزت وعالی خاندان سے تھے.
عہدہ منصفی پر منجانب سرکار بہادر ایک زمانے تک مامور تھے، مزاج میں ان کے ریاست اور اخلاق اور مروت بہت تھی. مرگئے. ان کے بیٹے اور بیٹیاں زندہ اور موجود ہیں. (آئینہ ترہت صفحہ 277)مطبوعہ 1883..مطبع بہار کشمیر لکھنو.
اس تحریر میں انھیں سرکار بہادر کی طرف سے عہدہ منصفی پر مامور ہونے کی بات ہے.. ممکن ہے خاندانی روایات کے مطابق آپ شروع میں حکومت مغلیہ کی طرف سے قاضی القضاۃ رہے ہوں..جیسا کہ آپ کے والد اور دادا بھی قاضی القضاۃ تھے. قرین قیاس ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد حکومت برطانیہ نے بھی آپ کو اس باوقار عہدے پر برقرار رکھا ہو… چونکہ دارالقضاء کے کالعدم کرنے کا آرڈیننس انگریز حکومت کی طرف بہت بعد میں جاری ہوا..
قاضی شیخ علی بخش نے پوری زندگی "امام عادل” کے تقاضوں کے مطابق شریعت اسلامیہ کے مطابق عدل و انصاف فراہم کرنے اور مجرموں کو سزا دلانے کا کام کیا.. دوسری طرف اصلاح خلق کی بھی بھرپور کوشش کی… بعد از وصال آپ کو آپ ہی کی تعمیر کردہ اسی قاضی مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا… آج اس مسجد میں جمعیت علماء بیگوسرائے کے ایک وفد کے ساتھ حاضری ہوئی تو حضرت قاضی علی بخش کے مرقد پر فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب کا شرف حاصل ہوا. شرکاء وفد میں حضرت مولانا محمد صابر نظامی قاسمی، جنرل سیکرٹری جمعیت علماء بیگوسرائے،مفتی عین الحق امینی قاسمی نائب صدر جمعیت علماء بیگوسرائے وجناب الحاج ماسٹر مبین صاحب، جناب مقبول عالم اور حافظ روح اللہ شامل ہیں.. پروفیسر صلاح الدین صاحب اور ڈاکٹر شادان جوہر نے استقبال بھی کیا اور بعض تاریخی حقائق سے واقفیت بھی فراہم کی.. فجزاہم اللہ خیرا…. واپسی پر یہ احساس شدید ہوا کہ :
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذرگئے
دل چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں.
بندہ محمد خالد حسین نیموی قاسمی
صدر جمعیت علماء بیگوسرائے
ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز دوحہ قطر..
١٢/١١/٢٠٢١
Comments are closed.