تعلیمِ نسواں عصرِ حاضرکی اہم ضرورت

فرقانہ علیم، جالے،دربھنگہ
تعلیم کی اہمیت قرآن کی روشنی میں قرآن میں نازل کردہ پہلی آیت سے ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:” پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا”۔[العلق:1] گویاپڑھنا علم کا عنوان وسرنامہ ہے۔جب پہلی وحی پڑھنے سے متعلق ہےتو علم کی فضیلت و اہمیت کی اس سے زیادہ روشن دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ؟
قرآن کریم کی کئی آیاتوں سے علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں علم کا ذکر 80 مرتبہ اور علم سے نکلے ہوئے الفاظ کا ذکر سینکڑوں مرتبہ ہوا ہے ۔

علم کی فضیلت میں بےشمار احادیث ہیں۔ معلمِ کائنات فخرِ موجودات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد (عورت) پر فرض ہے۔[ابن ماجه:224]
نبی اکرم ﷺ عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ ﷺ باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا[بخارى:101]

تاریخِ اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہ پایا جاتا تھا اور آپ ﷺ بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرماتے تھے۔
عہد نبوی کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ مرکوز کی گئی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کیا
":علموا نساءکم سورۃ النور”
اپنی خواتین کو سورۃ النور ضرور سکھاؤ کہ اس میں خانگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بےشمار مسائل اور احکام موجود ہیں۔

علم کی فضیلت و عظمت ترغیب و تاکید مذہبِ اسلام میں جس دلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔ انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش، بے بنیاد خواہش ہے۔
خالقِ کائنات نے عقائد ، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات کا جس طرح مردوں کو مکلّف بنایا ہے اسی طرح خواتین کو بھی مخاطب کیا ہے، اسی ليے علم کا حصول دونوں ہی صنفوں پر فرض قرار دیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہے، لہذا ان کی تعلیم و تربیت قوم و معاشرے دونوں کی ترقی اور بھلائی کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی علم کی ضروت پر کچھ یوں لکھتے ہیں:
*جہاں تک دیکھیے تعلیم کی فرماں روائی ہے*
*جو سچ پوچھو تو نیچے علم اوپر خدائی ہے*

تعلیم خصوصاً تعلیمِ نسواں کا خیال حب بھی ذہن میں آتا ہے تو ایک ایسی عبقری شخصیت عظیم مجاہدِآزادی اور ہندوستان کے پہلے وزیرِتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله علیہ کاآتا ہے۔ مولانا آزاد وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد تعلیم یافتہ ہندوستان کی بنیاد ڈالی اور مختلف کالج یونیورسٹی قیام عمل میں آیا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد بیک وقت عمدہ انشاء پرداز ، جادو بیاں خطیب، بےمثال صحافی، بیباک اور دور اندیش لیڈر، بہترین مفسر اور بلند و بالا خیالات کے حامل تھے ۔ مولانا آزاد تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے ۔ انہوں نے تعلیم نسوان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ:
"جب تک عورتوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہ اس لائق نہیں ہو سکتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے ذہن کی آبیاری بحسن وخوبی کر سکیں۔ انہوں نے روایتی تعلیم کی مخالفت تو نہیں کی ،لیکن اتنا ضرورکہا کہ اب یہ تعلیم بہت دور تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتی۔انہوں نے پردہ کو اسلام کا زیور قرار دیا، لیکن یہ بھی کہا کہ جس طرح کے پردے کا چلن ہے اور جس کی بنیاد پر عورتوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے وہ قوم کے مستقبل کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے ۔”
ان کا یہ تاریخی بیان ہے کہ
’’ہم صاف صاف کہہ دیتے ہیں اور اسے فیصلہ قطعی سمجھ لو اصول مسلمہ کی طرح مان لو کہ جب تک متعارف پردہ ہندوستان سے نہ اٹھے گا جب تک عورتوں کو جائز آزادی اور وہ آزادی جس کا اسلام مجوز ہے نہ دی جائے گی غلامی میں رکھ کراور پردے کی تقلید کے ساتھ تعلیم دینی نہ صرف فضول، بلکہ مضر اور اشد مضر ہے اس کی ایک نہیں بیسوں مثالیں مل جائیں گی۔ ”
مندرجہ بالا اقتباس نہ صرف مولانا آزاد کے نظریۂ تعلیمِ نسواں کی وضاحت ہے، بلکہ ان کے نظریۂ حقوقِ نسواں کی بھی مستحکم آواز ہے۔
شاعرِمشرق علّامہ اقبال رحمة الله عليه عورت کے ليے تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے ،لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہىے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اس قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغب کرتی ہو, بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔ عورت کو تعلیم یافتہ ہونا چاہىے، کیوں کہ ایک عورت سات نسلوں کو تعلیم یافتہ کرتی ہے ۔ اور وہ ایک عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے ،اگر عورت ہی تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو پوری قوم تباہ و برباد ہو جائے گی۔ وہ تعلیمِ نسواں کے خلاف نہیں بلکہ ایسی تعلیم کے خلاف تھے جو "زن” کو "نازن” یعنی نسوانی خصوصیات سے عاری بنادے۔ *جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن*

*کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت*

بقول پنڈت جواہر لال نہرو:
’’کسی ملک کی کارکردگی کا اندازہ اس ملک کی عورت کی حیثیت سے لگایا جا سکتاہے”

” When you educate a man you educate an individual when you educate a women you educate a whole family. ”
جب آپ ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں جب آپ ایک عورت کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ پورے خاندان کو تعلیم دیتے ہیں۔ ”

تعلیمِ نسواں ایک ایسا حسّاس اور اہم موضوع ہے جس پر اہلِ علم حضرات ، قلم کے شہسوار، شعراءِ کرام اور مختلف شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے صفحوں کے صفحے سیاہ کيے اور آج بھی ان کا اشہبِ قلم رواں دواں ہے اور عملی میدان میں کام جاری ہے، لیکن بدقسمتی سے ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل دور میں بھی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی اعلی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ معاشرے کے پست و منفی ذہنیت اور فرسودہ خیالات کے حامل افراد لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر نہ صرف اعتراض کرتے ہیں، بلکہ وہ حصول علم میں حائل بھی ہو جاتے ہیں۔
والدین بھی علم کے حوالے سے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان منصفانہ رویہ اختیار نہیں کرتے ۔لڑکوں کی تعلیم پر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کرتے ہیں، دوسری طرف لڑکیوں کو صرف یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ ” زیادہ پڑھ لکھ کر لڑکیاں کیا کریں گی ” یہ محض سوالیہ یا طنزیہ جملہ نہیں، ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے نہ صرف یہ کہ پڑھنے لکھنے کا شوق و ذوق، کچھ کرگزرنے کا جذبہ وحوصلہ،اپنی صلاحیت کو نکھارنےاور شخصیت کو تراشنے کے موقع پر کاری ضرب لگتی ہے،بلکہ مستقبل کے حسیں خوابوں کا محل زمیں بوس ہوتاہے،اورصنفِ نازک کی حق تلفی بھی ہوتی ہے،اس لیے بحیثیتِ مسلمان ہمیں چاہیے کہ ہم اچھے اسلامی ماحول میں لڑکیوں کو بھی اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے کے مواقع فراہم کریں۔

Comments are closed.