علماء کے بعدپادریوں پر کریک ڈاؤن

مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ
ایک مذہب، ایک زبان،ایک کلچراور ایک راشٹر کے پیچھے کا راز اب پوشیدہ نہیں رہا، ہندوستان میں کھلے عام اس ذہنیت کو زمین پر اتارا جارہا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بندشیں اور آئین کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی نظر آرہی ہے،بھارت میں ایک صدی قبل ’ہندوتو‘سوچ نے ’اکھنڈ بھارت‘کا جو سپنا دیکھاتھا،اسے تعبیر ملنے لگی ہے،جو بات کبھی پردے کے پیچھے ہو تی تھی وہ اب ڈنکے کی چوٹ پرکہی جا رہی ہے اورجنونی طاقت کے بل پر اسے عملی جامہ پہنا یا جا رہا ہے۔
بی جے پی کی اقتدار والی ریاست اتر پردیش میں علما ء دین کی گرفتاریوں کے بعداب پادریوں اور مسیحی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا کا رخ بتانے کیلئے کافی ہے۔ تازہ معاملہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ریاست اترپردیش سے جڑا ہے،اعظم گڑھ،مؤ، مہوباجیسے اضلاع میں مذہب تبدیل کروانے کے غیر منطقی جرم میں مسیحیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو گیا ہے، کئی پادری جیل بھیج دیئے گئے ہیں،ان پر وہی گھسا پٹا الزام ہے کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر عیسائی بنارہے ہیں۔ مؤ ضلع کے شہادت پور ہ محلہ میں ابراہم سمیت آٹھ مسیحیوں کو اٹھالیا گیا۔ان پر مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کئے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ہندو جاگرن منچ کی شکایت پر پولیس نے شہادت پورہ کے بجندر کمار کے گھر پر چھاپہ مارا۔ الزام یہ ہے کہ ان کے گھر میں گزشتہ پانچ سالوں سے غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا کام چل رہا ہے۔ یہاں بچوں کا مشنری اسکولوں میں داخلہ، مفت تعلیم، شادی بیاہ کے اخراجات اور علاج میں سہولیات کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔بجندر کے مطابق ان کے گھر پر گانے بجانے کا پروگرام چل رہا تھا جس کو ہندو جاگرن منچ کے لوگوں نے بھگوا رنگ دے دیا ہے۔اسی طرح کا معاملہ مہوبا ضلع میں بھی سامنے آیا ہے جہاں ایک پادری پر پچھلے آٹھ سالوں سے غریبوں کو پیسوں کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگا ہے۔ ھندتواوادی تنظیموں کی شکایت پر ملزم پادری آشیش جان کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق بلیا کا رہنے ولا آشیش جان نامی پادری ہندو سے عیسائی بنانے کا کام بے خوف ہوکر کر رہا تھا، وہ کیرل کی عیسائی مشنریوں سے جڑا ہوا ہے۔
اس سے قبل داعی اسلام محمدعمر گوتم،مفتی جہانگیر قاسمی اورمولانا محمدکلیم صدیقی کی گرفتاریاں اسی گندی سوچ کے نتیجہ ہیں۔کہاجا رہا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعہ مذہب تبدیل کراتے تھے،ان کے اکاؤنٹ میں تین کروڑ کی رقم بیرونی ممالک سے آئی۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو رقم کسی کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے وہ اس کا پورا حساب کتاب ہوتا ہے اور اس سے انکم ٹیکس محکمہ بھی واقف ہوتا ہے۔ اگر تین کروڑ کی خطیر رقم ان کے اکاؤنٹ میں مشتبہ لوگوں نے جمع کی تھی تو اس کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی؟ اس ملک میں کتنے ہی مذہبی اور غیرمذہبی ادارے ایسے ہیں جو غیرملکوں سے امدادحاصل کرتے ہیں اوروہ وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت حاصل کرکے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ایسے ہی کسی ذریعہ سے مولانا کلیم صدیقی کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع ہوئی ہے تو وہ غیرقانونی کیسے ہوگئی؟اگر وہ واقعی غیر ملکی فنڈنگ حاصل کررہے تھے تو اس کی تحقیقات ای ڈی یا پھر انکم ٹیکس محکمے کو کرنی چاہئے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ ۷/ ستمبر کو مولانا کلیم صدیقی نے ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس پروگرام کو بھاگوت کی ”مسلم دانشوروں سے ملاقات“ کا عنوان دیا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے لیے خود موہن بھاگوت کے بھائی نے اپیل کی اورمولانا کلیم صدیقی کو مدعو کرکے ان کے گھرلے گئے؛حالانکہ کئی حلقوں میں مولانا پر تنقید بھی ہوئی تھی، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دعوتی مشن کے تحت وہاں گئے تھے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ مولاناکلیم صدیقی نے موہن بھا گوت سے ملاقات حفظ ماتقدم کے طورپر کی تھی؛ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا؛ کیونکہ پولیس نے ان کے خلاف جو ابتدائی فردجرم میڈیا کے روبرو پیش کی ہے، اس میں تبدیلی مذہب کے ایک خطرناک ریکیٹ میں شامل ہونے کا الزام ہے جس میں کروڑوں کی غیرملکی فنڈنگ ہوئی ہے۔اے ڈی جی پرشانت کمار کا دعویٰ ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کی تنظیم گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ لوگوں کو ڈرا دھمکاکر مذہب تبدیل کراتے تھے؛حالانکہ ابھی تک ایسا کوئی شخص سامنے نہیں آیا ہے جس نے یہ کہا ہو کہ مولانا کلیم صدیقی یا دیگر علماکرام نے اس کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہو یا پھر اسے کوئی لالچ دیا ہو۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کا دستور اپنے شہری کو اس بات کی پوری اجازت دیتا ہے کہ وہ جس مذہب کوچاہے اختیار کرے اور اس کی ترویج اوراشاعت میں حصہ لے۔ اسی دستوری حق کا فائدہ اٹھاکر ہمارے ملک میں عیسائی مشنریاں انتہائی غریب اور پسماندہ بستیوں میں فلاحی کام کرتی ہیں اور لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتی ہیں۔لیکن جب سے ملک میں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، اس نے غیر دستوری اور غیر جمہوری طریقہ سے کام کرنا شروع کیا ہے۔ ان ہی میں ایک کام اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا راستہ روکنا ہے۔یہ دراصل اقلیتوں کو ملک دشمن ثابت کرنے کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے جس میں پوری مشینری ملوث ہے۔کمزور مذہبی اقلیتیں تبدیلء مذہب کے سوال کا مرکزبنی ہوئی ہیں۔مذہب کی تبدیلی کے عمل کی بحث سنگین حد تک دراڑ پیدا کرنے والے الزامات اور جوابی الزامات کا شکار بن کر رہ گئی ہے۔انڈیا جیسے ملک میں جو دستور کے مطابق چلتا ہے تبدیلی مذہب کے سیاق و سباق کو سمجھنا چاہیے اور پھر کارروائی کرنی چاہیے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مبلغین کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف کسی بھی شخص نے جبراً تبدیلی مذہب کا الزام نہیں لگایا ہے۔ حالانکہ بعض کیسز میں مذہب تبدیل کرنے والے شخص کے رشتہ داروں نے شکایت ضرور کی ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق ان کی شکایتیں عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوال میں وزارت داخلہ کہتی ہے کہ ہندوازم کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہے، مونیش جبل پوری نامی شخص نے وزارت داخلہ سے ثبوتوں کے ساتھ یہ جاننا چاہا تھا کہ کیا ملک میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے” وزارت داخلہ نے اس کے جواب میں بتایا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ بھارت میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔
اتر پر دیش میں جب سے’لو جہاد‘ کا متنازع آرڈیننس کو پاس ہوا، تبدیلی مذہب کے نام پر گرفتاریوں کالا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جوریاست کبھی گنگا جمنی تہذیب کا گہوراہ ہوا کرتی تھی وہ نفرت، تقسیم اور تعصب کی سیاست کا مرکز بن چکی ہے، اور حکومتی ادارے فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ہوچکے ہیں۔خیال رہے کہ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے’لو جہاد‘سے متعلق انسداد تبدیلی مذہب کے نام سے ایک متنازعہ قانون متعارف کیا ہے۔ اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد سے اترپردیش میں بین المذاہب شادیوں کے خلاف کارروائیوں اور گرفتاریوں کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور قانون کے بہت سے ماہرین تبدیلی مذہب سے متعلق اس نئے آرڈینینس کو سیاہ قانون سے تعبیر کرتے ہیں۔بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہریانہ اور آسام میں بھی اتر پردیش کی طرح یہ سیاہ قانون نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔بی جے پی سرکارکے اس رویہ پر عالمی برادری میں بھی تشویش کی لہر دوڑگئی ہے۔امریکا کے مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن نے 2021 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ذریعے ہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کو فروغ دیے جانے کے نتیجے میں مذہبی آزادیوں کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔مودی حکومت نے یہ رپورٹ جانبداری پر مبنی قرار دے کر مسترد کر دی ہے۔تبدیلی مذہب کے حوالے سے اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ سقوطِ اندلس کے موقع پر عیسائیوں نے جبرکیا اور جن لوگوں نے اسلام چھوڑ کر مسیحیت قبول نہیں کی ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیاگیا۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ تم سب اسلام قبول کرلو بلکہ انصاف اور رواداری کی تعلیم دی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ کو حرم قرار دے دیا گیا تو غیر مسلوں کو کہا گیا کہ اب یہاں صرف مسلمان رہ سکتے ہیں، تم ہجرت کر جاؤ اس وقت بھی یہ نہیں کہا گیا کہ تم مسلمان بن جاؤ۔
ہندوستانی آئین فکرو خیال کی آزادی، مذہب کے اظہار کی آزادی کی ضمانت اور ایک سیکولر ریاست کا مینڈیٹ دیتا ہے؛ دستور اس بات کا تقاضا کرتا ہیکہ تمام مذاہب کو غیر جانب داری کے ساتھ برابر سمجھا جائے۔آئین یہ بھی کہتا ہے کہ شہری ہر حال میں اپنے مذہب پر اس انداز میں عمل کریں کہ اخلاقیات یا صحت پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ مظالم اور ناانصافی پرسرکار کی خاموشی یا لیپا پوتی بتا رہی ہے کہ یہ کارروائیاں اورحملے حادثات نہیں، ریاستی پالیسیوں اور سماجی نفرتوں کا منطقی نتیجہ ہیں۔ کسی بھی سماج میں پائی جانے والی نفرت، تعصب، اِمتیازی سلوک،کم تر اور برتر کی سوچ بتدریج سماج کو تاریک راستے پر لے جاتی ہے۔اور یہ ایسے پُرتشدد بھیانک سانحات کو جنم دیتی ہیں جن کو دیکھ یا سُن کر رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔ اِنسانی تاریخ ایسے بے شمار واقعات اور جگ بیتیوں سے بھری پڑی ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ کسی بھی مخصوص
عقیدے، مذہب، نسل، رنگ یا جِنس کے اِنسانوں کے خلاف جتنی اِنتہا پسندی بڑھے گی،ملک میں اتنی ہی بے چینی بڑھے گی۔بی جے پی حکومت کی سینہ زوری،بھگوادھاری تنظیموں کی نفرت، تعصب، اِنتہاپسندی اور جنونیت کی آگ گنگا جمنی تہذیب کو خاک کرتی ر ہے گی۔ ریاست کی مذہبی پہچان، ریاست کا سرکاری
مذہب ہونا اور ریاست کے ڈھانچے میں کم تر اور برتر کا منظم تصور، نفرت زدہ نظام اور فرقہ وارانہ انتہا پسند تنظیموں کی موجودگی سلگتی ہوئی آگ کو تسلسل سے ایندھن فراہم کر رہی ہیں۔یہ کسی بھی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
ملک کی اقلیتوں کونوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ آج وہ تو کل ہماری باری ہے، اگلا نمبر کس کا ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔تبدیلی مذہب کے نام پر ملک میں جو سازشی کھیل شروع ہوا ہے، اس کی جڑیں بہت دور تک پیوستہ ہیں۔یہ کارروائیاں دو ٹوک کہہ رہی ہیں کہ ناگپور اور آر ایس ایس کے کیمپوں سے روحانی غذا حاصل کرنے والے ’اکھنڈ بھارت‘کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں جارحانہ رخ اپنائے ہوئے ہیں،لیکن ہم اس دیش کے ’آشاوادی‘لوگوں میں ہیں،ہمیں یقین ہے کہ یہاں کی مٹی اس منافرت بھرے سپنے کو پورے ہو نے نہیں دے گی۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے قدر وقیمت کا اندازہ ہو تا ہے،اس لئے میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانو ں سے کہو ں گا کہ آپ اس ملک میں پھل دار اور سایہ دار درخت کا کردار پیش کریں،طوفان کا تیورکمزورضرور پڑے گا۔ہواکسی کی نہیں ہو تی،وہ دیر سویر رخ ضرور بدلے گی،ملک کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں یہاں کے اقلیتی طبقات اور پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے اشخاص کو اپنے ملی تشخص کی حفاظت و بقا کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے چاہیے؛تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے خوشگوار ماحول بن سکے اور دستوری لحاظ سے دعوتی احکامات کے دروازے وسیع تر ہو سکیں؛لیکن اس دوران ہمیں اپنا کام کرتے رہنا ہوگا،امارت شرعیہ اپنی سطح پر کام کر رہی ہے مزید کرے گی اور اللہ نے چاہا تو قانونی چارہ جوئی کے لئے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے ایک مضبوط لیگل سیل کا قیام بھی عمل میں آئے گا جو دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اس معاملہ پر بھی اپنی نظر رکھے گا۔
Comments are closed.