پیاری ماں

منزہ نور

السلام علیکم!

ایسے جہاں میں تجھے سلام جہاں روحیں بستی ہیں، جس کی کشش انسان کو مدت دیے ہوئے ہے، تیرا کوئی خط نہ پا کر میں نے خود سے تجھے خط لکھ ڈالا۔

تیرے بغیر میرا اس دنیا میں دل نہیں لگتا، تازہ سُرخ پھول مجھے تیرے بہتے خون کی یاد دلاتے ہیں، یہ ہوا کی تیز خنکی مجھے تیرے اُکھڑتے سانس کی یاد دلاتی ہے، بہاروں سے مجھے ڈر لگتا ہے، جو سبزے کو مہکا کر خزاؤں کے سپرد کر دیتی ہے، جب ہوا رقص کرتی اپنے ہمراہ بادلوں کو لے کر آتی ہے تو مجھے اس کی پھواروں میں سارے عالم کے رونے کی آوازیں آتی ہیں، شور میرے اندر سُناٹے اُتارتے ہیں، وفائیں مجھے بیزار کرتی ہیں، مجھے بتا تیری دنیا کے لوگ کیسے ہیں؟ کیا وہ اندر سے باہر جیسے ہیں؟ یہاں سانپ آستینوں میں پلتے ہیں، لوگ دوسرے کو خوش دیکھ کر اپنے غموں پر روتے ہیں، مرنے والے کی موت کی اطلاع کا انتظار کیا جاتا ہے، خون کے رشتوں میں بدگمانیاں راج کرتی ہیں، وفاؤں نے خود کو مقفل کر لیا ہے، اب وہ نہیں دکھتیں، زندگی اونچے مکانات سے نکل کر غریبوں پر ستم زدہ ہے، تمہاری میرے حق میں کی گئی دعائیں کچھ وقت کو میرے دل کو ٹھنڈا رکھتی ہیں، کسی چیز کی طلب قرار نہیں دیتی، یہ خط پا کر میرے لیے دعا کرنا، جب تو تھی تو دنیا ایسی تو نہ تھی؟ ہم جو ملے تو باقی کے احوال سناؤ۔

میں الله سے تمھاری بخشش اور سکون کی دعا کرتی ہوں، اگر ہو سکے تو اپنا احوال لکھ چھوڑ، میں خواب میں تجھے بڑا خوش دیکھتی ہوں، الله اپنے دربار میں تمھارے درجات بلند کرے۔

 

تیری پیاری بیٹی

ا ب ج

Comments are closed.