راہِ ایمان پر یقین سے عمل کی منزل تک

ثناء سحر،اوچشریف
"جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ان کے لیے جنت کی بشارت ہیں”
محمد رسول اللہؐ جس تعلیم کو لے کر آئے اس کا بنیادی علم یہ ہے کہ انسان کی نجات دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک ایمان اور دوسرا عملِ صالح ۔ایمان بنیادی اصولوں پر یقین کامل رکھنے کا نام ہے،اور عمل صالح ان اصولوں کے مطابق عمل کا،کسی بات کا صرف علم ہونا کافی نہیں ہوتا جب تک اس علم و یقین کے مطابق عمل بھی کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے انسان کی نجات اور فلاح کے لیے یقین اور عمل کو لازمی قرار دیا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ عوام میں ایمان کو جو اہمیت حاصل ہے جتنا ہم دین کی باتیں کرتے ہیں اتنے ہی بے عمل لوگ ہے۔ ہم ایمان تو رکھتے ہے، لیکن نیک اعمال پر عمل کرنا بھول جاتے ہے آج کل ہر انسان غفلتوں کا شکار ہے۔ حالانکہ یہ دونوں لازم ملزوم کی حیثیت سے عملاً یکساں اہمیت رکھتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ایمان بنیاد ہے تو نیک عمل اس پر قائم شدہ دیوار یا ستون ،جس طرح کوئ عمارت بنیاد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی،اسی طرح وہ دیوار یا ستون کے بغیر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ بلکل ہم بے شک معلومات کے خزانے رکھتے ہے لیکن اگر ہم اچھی باتوں پر عمل نہیں کرتے تو ہمارا علم بھی بےکار ہے، ہم ذہنی مفلوج ہیں، ہم دین کو جان کر انجان بن جاتے ہیں۔ زمانہ کی پوری انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ انہیں افراد اور قومیت پر فلاح اور کامیابی کے دروازے کھلے ہیں۔ جن لوگوں کو حقائق پر یقین ہوتا ہے ان کے عمل بھی نیک ہوتے ہیں۔
قرآن پاک میں فرمایا:
"جو کوئ گناہ کا کام کرے گا تو ہم اس کو سزا دیں گے ،پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ کر جائے گا تو اس کو بری طرح سزا دے گا اور اسی طرح جو کوئ ایمان لایا اور نیک عمل کرنے والے کے لیےبھلائ کا بدلہ ہے”
(سورہ الکہف:آیات88)
بلکل اسی طرح اگر ہم ایمان ہونے کے باوجود بے عمل رہے تو یہ ایمان کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔بے شک ایمان کے ہوتے عمل سے محرومی تو محض فرضی بہانہ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں عمل کی کمی ہے وہاں ایمان میں بھی کمزوری ہے۔ اگر کسی چیز پر ہم پورا یقین رکھتے ہیں تو کیا اس پر عمل نہیں کریں گے؟؟ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ کسی چیز پر یقین ہونے کے بعد عمل نہ کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہے،جس طرح آگ کو جلانے والی پر یقین کرکے ہم آگ میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتے،مگر ایک نادان بچہ جو ابھی آگ کی تپش سے ناواقف ہوتا ہے ،وہ اس میں ہاتھ ڈالنے کو آمادہ ہوجاتا ہے۔ بس ظاہر ہے ناں کہ ہمارے عمل کا قصور، ہمارے یقین کی کمزوری کا راز فاش کر تاہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
"بے شک جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کی مہمانی کے لیے باغِ فردوس ہیں”
(سورۃ الکہف :آیات 108)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا:
” جس کو اپنے پروردگار سے ملنے کی امید ہو تو اس کو چاہئیے کہ وہ نیک عمل کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بنائے”
(سورہ الکہف: آیات110)
ہمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل کرنے والا بننا ہے، کیونکہ عمل کے بغیر علم بے معنی ہے۔پتہ ہے کہ علم پر یقین کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کیا فرق ہے؟؟
جی جس طرح ہمیں کسی اصول کے درست ہونے کا یقین ہے ، تو اس کو ایمان کہتے ہیں، پھر اسی یقین کے مطابق اگر ہمارا عمل درست ہو ،تو یہ صالح علم اور صالح عمل بن جاتا ہے۔ اور ہر قسم کی کامیابی کا انحصار ان دو باتوں پر ہے۔جس طرح کوئ مریض کسی ڈاکٹر سے مل کر صرف اس کی تسلی سے ٹھیک نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اس کی دی ہوئی دوائيں نہیں کھائے گا وہ بیماری سے نجات نہیں پاسکتا جب تک بتائے گئے اصولوں پر عمل بھی نہ کرے،اسی طرح صرف اصولِ ایمان کوتسلیم کر لینا کافی نہیں جب تک ان اصولوں پر پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے ۔
اس دنیا میں اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو ہر شے کو تابع فرمایا،یہاں تک کہ دنیا کی کامیابی اور فلاح بھی صرف ذہنی عقیدہ اور ایمان سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب تک اس عقیدے کے مطابق عمل بھی نہ کیا جائے،اب دیکھیں ناں!کیا صرف یہ سوچ لینے سے یہ یقین کرنے سے کہ روٹی ہماری بھوک کا علاج ہے، ہماری بھوک ختم ہوجائے گی کیا ؟
نہیں بلکل نہیں ہوگی! بلکہ اس کے لیے مزید تڑپ پیدا ہوگی، جس کے لیے ہم جدوجہد کرکے روٹی حاصل کریں گے ،اور پھر اس کو چبا کر اپنے پیٹ کو بھرنا پڑے گاتب ہی بھوک ختم ہوگی جب ہم سوچ پر عمل کریں گے۔
جیسے ہم صرف یہ سوچ رکھیں کہ ٹانگیں ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں،ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچ سکتے،جب تک سوچ پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی ٹانگوں کو حرکت نہ دیں آگے نہیں جاسکتے۔ اور یہی صورت ہمارے دوسرے دنیاوی اعمال کہ ہے ،اسی طرح اس دنیا میں صرف تنہا علم کے سہارے کسی بھی عمل کے بغیر تنہا ایمان کامیابی کے حصول کے لیے بےکار ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہر وہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں اللہ کی خوشنودی ہو،جس عمل میں جنت کی بشارت شامل ہو۔آمین
جزاک اللہ۔
Comments are closed.