ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

تحریر:شاہ اصغر لولابی
سال 2009 میں دارالعلوم قاسمیہ سرینگر کشمیر کے سالانہ جلسہ میں علماء اور عوام کے جم غفیر میں میں سب سے لاتعلق ایک شخص کو دیکھے جارہا تھا۔ یہ میری بُری عادتوں میں سے ایک ہے، کوئی نظر کو بھا جائے تو اس پر نظریں جما دیتا ہوں۔ جوان ، بچے بوڑھے کی کوئی شرط نہیں، جو بھا گیا نظروں میں سما گیا۔
وہ شخص بھی میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ گندمی رنگ سے چھلکتی سرخی، سلیقے سے بنے ہوئے داڑھی کے بال، جن میں سرمئی شام اور ڈھلتی دوپہر کی دھوپ کے رنگ ملے ہوئے، درمیانہ قد، گتھا ہوا کسرتی جسم تحرک اور توانائی سے بھرا۔ میرے لیے سب سے زیادہ جاذب نظر ذہانت سے دمکتی آنکھیں اور چہرے کا احاطہ کیے متانت تھی۔
‘وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے’ سنا تھا آج دیکھ بھی لیا
`ادھر اسٹیج پر جلوہ افروز تمام علما کھڑے ہو کر استقبال کررہے ہیں اور دوسری جانب ادارہ کے بانی حضرت مولانا احمد سعید شاہ قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کچھ ان الفاظ کے میں تعارف فرماتے ہیں ۔کہ حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کی رحلت کے بعد ادارہ کے دوسرے منتخب سرپرست اعلی حضرت پیر شمس الدین صاحب امیر تبلیغ ضلع کپواڑہ اسٹیج پر تشریف لا چکے ہیں یوں اس تعلق و تعارف کے بعد وقتاً فوقتاً زیارت ہوتی رہی اور آخری ملاقات تھی جب حضرت مفتی فیض الوحید صاحب نور اللہ مرقدہ کی وفات کے بعد ان کے داماد حضرت مفتی محمد طیب قاسمی کے ہمراہ حضرت پیر صاحب کی عیادت کے لیے جانا ہوا تھا
مورخہ 12 نومبر کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا نماز جمعہ کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو حضرت پیر صاحب کی رحلت کی اندوہ ناک اور غم ناک خبر سنی ذہن ماؤف دل مخزون آنکھیں پر نم ہواس ساتھ نہیں دے پا رہے سانسیں اکھڑی ہوئی ہاتھوں میں کپکپی کہ لکھوں تو کیا لکھوں یکے بعد دیگرے علم و عمل کے ستون گررہے ہیں قحط الرجال کے دور میں علوم نبوت کی مشعلیں تیزی سے بجھتی جارہی ہیں اور اندھیرے بڑھ رہے ہیں اب تو چلچلاتی دھوپ میں مرکزی سائبان ہی اجڑ گیا وہ سایہ دار شجر نہ رہا جو طوفان میں پرندوں کا ملجا و ماویٰ تھا دینی حلقوں کا وہ مرکزی نقطہ ہی رخصت ہوگیا جس کے گرد سارے دائرے گھومتے تھے وہ چراغ ماند پڑ گیا پروانے جس کا طواف کرتے تھے جو کہ اکابر کی ایسی یادگار تھے کہ جن سے پچھلی روایتیں اور اقدار زندہ ہی نہیں بلکہ وہ تاریخ بھی پوری روانی اور برق رفتاری کے ساتھ چل رہی تھی جس انداز میں اکابر چھوڑ کر گئے تھے شخصیت ایسی منفرد تھی کہ اپنے معاصرین میں مقرر بھی تھے خطیب بھی مدرس بھی ادیب بھی صاحب نسبت بھی اور صاحب فضل بھی تھے
رب العزت نے جو مقبولیت حضرت پیر صاحب کو عطا فرمائی وہ کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے بادی النظر میں یہ کہنا بہت آسان اور لکھنا بہت سہل ہے کہ فلاں شخصیت بہت عظیم تھی مگر اس عظمت کے پیچھے کتنی راتیں دن میں تبدیل ہوگئیں اور کتنے دن راتوں کی نظر گئے، صبح و شام ایثار ہر لمحہ جفاکشی، خود کو بنانے کی لگن، جدوجہد اور مساعی، کچھ ایسے عنوان ہیں جو انسانی عظمتوں کی بنیاد بنتے ہیں حضرت پیر صاحب نے زندگی کو اسی رخ پر ڈالا جو رخ ہمیشہ سے بڑوں کا رہا ہے اور وہی زندگی گزاری جو نامور افراد کی زندگی ہوتی ہے پیر صاحب نے جدوجہد کا دامن تھاما اور اپنے معاصرین میں ایسی حیثیت حاصل کی کہ دوسروں نے ان کو رشک کی نگاہوں سے دیکھا
پیر صاحب کے علمی اساتذہ میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کے شاگرد خاص حضرت مولانا سکندر صاحب رحمہ اللہ (والدبزرگوارحضرت مولانا احمد سعید شاہ صاحب) تھے اور سب سے بڑے روحانی مرشد حضرت منشی اللہ دتا رحمۃ اللہ علیہ تھے.
چونکہ اللہ کارساز حقیقی ہے اس نے حضرت منشی جی اور حضرت مولانا کی صورت میں حضرت پیر صاحب کو ایسے مربی عطا فرمائے جنھوں نے اپنی توانائیاں پیر صاحب کو بنانے اور انہیں جوہرِ قابل کی صورت میں ڈھالنے کا بڑا کارنامہ انجام دیا اور بلاشبہ یہ کارنامہ ہی تھا اسی لیے دنیا نے دیکھا کہ مسجد المرشدین میں گزرنے والی زندگی حضرت پیر صاحب کے عروج اور انتہائی کمال کی مدت ہے
چنانچہ ایک داعی اور عارف باللہ کی حیثیت سے انہوں نے جو شہرت حاصل کی اس تک رسائی کی تمنا ہر دل میں جگہ بناتی ہے مگر یہ عطائے ربانی ہے جس کے حصہ میں بھی آئے،
بہت ساری مشغولیتوں مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ اللہ نے آپ کو تدبر اور تفکر کی دولت سے بھی نوازا تھا اور ملت کا درد آپ کے سینے میں موجود تھا حضرت منشی اللہ دتا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ابتدائی زندگی میں تعلق نے بھی یہ باور کرا دیا کہ پیر صاحب بہت بلند مقام پر پہنچیں گے اور امت مسلمہ کی خدمت انجام دینے کے ساتھ کارہائے نمایاں بھی ان کے ذریعے وجود میں آئیں گے اور ہوا بھی یہی کہ انہوں نے مرکز دعوت و تبلیغ مسجد المرشدین کے نام سے جو دینی دعوتی اصلاحی رہنمائی کے لئے مرکز سجایا تھا اس سے بھی وہ قیادت کا فریضہ انجام دیتے رہے
اللہ نے انہیں ذہن ثاقب فکر بلند اور تدبر و تحمل کی ان خصوصیات سے مالا مال فرمایا تھا جو ایک داعی کے لیے لازمی اور ضروری ہے
ان کی موجودگی میں ایک مختصر وقت میں ہی دعوت وتبلیغ کے ذریعہ پوری وادی میں ایک ایسی دینی فضا بن گئی کہ وہ یہ ثبوت دینے میں کامیاب رہے کہ دینی رہنمائی کی فکر اگر کسی کے دل میں موجود ہے اور اس کا قلب اس درد کو محسوس کرتا ہے تو تھوڑے وقت میں بھی نمایاں کام انجام دیا جاسکتا ہے
بہرحال حضرت پیر صاحب کو صحیح اور سچا خراجِ عقیدت یہ ہے کہ وہ جو کام ادھورے چھوڑ گئے ہیں ان کی تکمیل کی جائے اور جن راستوں پر چلے ہیں ان راستوں پر چل کر ان کے خوابوں کی تعبیر کی جائے
7051813277
Comments are closed.